نتیجۂ فکر: محمد اظہر شمشاد
کوئی مظلوم اور کوئی یہاں ظالم نہیں ہوتا
محبت کا میرے ہمدم کوئی سسٹم نہیں ہوتا
محبت کی نہیں جاتی سخن یہ بالیقیں حق ہے
محبت ہو ہی جاتی ہے کوئی عازم نہیں ہوتا
سمجھتے ہیں مجھے اوروں سا عاشق حسن کا اپنے
ہما کے مثل ہوں مجھ سا اب اے جاناں نہیں ہوتا
محبت جنگ میں سب کچھ رواں ہے اس لیے لوگوں
خطا کر کے یہاں پر اب کوئی نادم نہیں ہوتا
تڑپتی ہے بنا پانی کے مچھلی ویسی حالت ہے
تڑپتا ہے یہ دل دیدہ مگر پر نم نہیں ہوتا
رقم کیا کیا کرے اظہر جراحت عشق کی لوگوں
یہ ایسا روگ ہے جس کا کوئی مرہم نہیں ہوتا