نتیجۂ فکر: محمد زاہد رضا بنارسی
دارالعلوم حبیبیہ گوپی گنج، بھدوہی یوپی انڈیا
دیکھ کر ہر شخص محشر میں یہ ششدر رہ گیا
دامن آقا میرے اشکوں سے جب تر ہو گیا
معجزہ تو دیکھئے کہ دفعتاً میرا دماغ
ان کے گیسو کے تصور سے معطّر ہوگیا
گنبد خضرٰی کے سائے میں جسے موت آگئی
اس کا مرنا اس کے جینے سے بھی بہتر ہوگیا
کشتیٔ حجاج کو ساحل کے اوپر دیکھ کر
دل دیوانہ جامۂ ہستی سے باہر ہوگیا
لیتے ہی نام محمد ﷺ کھل گئی دل کی کلی
اور یارو اوج پر میرا مقدّر ہوگیا
عشق احمد کی تڑپ نے دل کو بخشی زندگی
جان لیوا درد بھی اب روح پر ور ہوگیا
دشت ہو صحرا ہو یا ہو شہر اور قصبہ کوئی
ہم نبی والوں سے ہر عالم منور ہوگیا
مل گئی ہے خاکِ پائے آقا قسمت سے مجھے
ہوگیا میرا علاج قلب مضطر ہوگیا
اس کو بھی دیوانۂ سرکا سب کہنے لگے
اب تو "زاہد "بھی مقدر کا سکندر ہوگیا