مرشدی تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے ایک مصرع پر طبع آزمائی کی کوشش
نتیجۂ فکر: اشتیاق احمد شوق، ممبئی
” کاش گنبد خضرا دیکھنے کو مل جاتا”
آنکھیں زیرِپا ہوتیں،چشم بَن کےدل جاتا
فرقتِ مدینہ نے چاک کردیا دل کو
گر نظر وہ فرمادیں، چاک دل کا سِل جاتا
سجدہ ریز ہوجاتا عشق ان کےروضے پر
اور خرد جبیں روکے سمتِ معتدل جاتا
بارگاہِ آقا میں حالِ دل بیاں کرنے
طائرِ مدینہ تو!لے کے دردِ دل جاتا
شانِ شاہِ بطحا میں خامۂ عقیدت سے
کلمۂ ثنا میرا، نعت بن کے کھِل جاتا
بےعمل تھا،محشر میں آس تھی شفاعت کی
لاج رکھ لی آقا نے ،کیسے منفعل جاتا
بھیک ان کی ملتی ہے ہر گھڑی زمانے کو
شوق بےنوا کیسے در سےمضمحل جاتا
مدّعا فقط اتنا شوق! لے کے جائے گا
جب نظر ہو روضے پر،جان سے یہ دل جاتا