غزل

غزل: کاش! سال نو بہار لائے

نتیجۂ فکر: محمد وزیر احمد مصباحی، بانکا

نفرتوں کا ہو جائے خاتمہ
محبتوں کے ہر سو دیپ جلے
ظلمتوں کی ہو یکثر انتہا
شفقتوں کے بھی نور بہے
عربتوں کے ہو یقیناً پَر کٹے
خوف کے ہو سارے ختم سائے
تاناشاہی کی ہر لہریں تھمے
چہروں پہ رونقیں دوڑے
کاش! سالِ نو بہار لائے
ہر اک کو ہو خوشحالی نصیب
امن و آشتی کی چلے بادِ نسیم
مہاماری سے ہو یہ جہاں خالی
بھائی بھائی جیسی ہو فضا قائم
علم و عمل، مسرت و راحت
اور تدبر و حکمت بنے رفیق
نفرتوں کی لہریں، شر کی لپٹیں
اور یاس کی کرنیں بھی دور ہوں
ہاں! ہمارا وطن بنے گہوارۂ امن
بوڑھے، بچے اور جواں ہوں مگن
” انا” کی ہو دیوار بھی منہدم
ذرۂ وطن سے ہو آسماں پہ نور
آؤ! عہد کریں باہم تعاون کرنے کی
خوشی و غم میں شرکت کرنے کی
مل کے جہاں میں ساتھ چمکنے کی
بھید بھاؤ سے دامن چھڑانے کی
آسماں پہ علمی کمندیں ڈالنے کی
فرقہ پرستوں کو آئینہ دکھانے کی
ہاں! یہ سالِ نو ہو راحت بھرا
خوشیوں و مسرتوں کا بھی دلربا
ہمارے خوابوں کا بنے جائے یہ معبر
ہم اس کے دامن میں پائیں سکوں
ہو یہ مری دعا حق میں سب کے قبول
سب پائیں اپنے من کی مرادیں بھرپور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے