ازقلم: اسانغنی مشتاق رفیقی
جب کبھی کرتا ہوں میں، ظلم و ستم پر احتجاج
لوگ کہتے ہیں رفیقیؔ کو نہیں کچھ کام کاج
سچ کو سچ ہی بولتا ہوں، جھوٹ میں کہتا نہیں
حیف پاگل کہہ رہا ہے اُس پہ یہ میرا سماج
شہر کا حاکم ہمیشہ مجھ سے رہتا ہے خفا
میں کبھی دیتا نہیں اُس کی حماقت کو خراج
شیخ جی کو بند مٹھی میں سبھی کچھ چاہئے
اُن سے اچھا ہے مہاجن لیتا ہے کھل کر بیاج
کیا خبر بھی ہے تجھے یوں تیرے کاروبار پر
تجھ کو کٹھ پتلی بنا کر کر رہا ہے کون راج
جس کے دسترخوان پر تھے سونے چاندی کے ظروف
وہ ترستا پھر رہا ہے ایک اک دانے کو آج
سب میں ہل مل کر ہے وہ، سب دوست رکھتے ہیں اُسے
جانتا کوئی نہیں پھر بھی رفیقیؔ کا مزاج