غزل

غزل: وہ ترستا پھر رہا ہے ایک اک دانے کو آج

ازقلم: اسانغنی مشتاق رفیقی

جب کبھی کرتا ہوں میں، ظلم و ستم پر احتجاج
لوگ کہتے ہیں رفیقیؔ کو نہیں کچھ کام کاج

سچ کو سچ ہی بولتا ہوں، جھوٹ میں کہتا نہیں
حیف پاگل کہہ رہا ہے اُس پہ یہ میرا سماج

شہر کا حاکم ہمیشہ مجھ سے رہتا ہے خفا
میں کبھی دیتا نہیں اُس کی حماقت کو خراج

شیخ جی کو بند مٹھی میں سبھی کچھ چاہئے
اُن سے اچھا ہے مہاجن لیتا ہے کھل کر بیاج

کیا خبر بھی ہے تجھے یوں تیرے کاروبار پر
تجھ کو کٹھ پتلی بنا کر کر رہا ہے کون راج

جس کے دسترخوان پر تھے سونے چاندی کے ظروف
وہ ترستا پھر رہا ہے ایک اک دانے کو آج

سب میں ہل مل کر ہے وہ، سب دوست رکھتے ہیں اُسے
جانتا کوئی نہیں پھر بھی رفیقیؔ کا مزاج

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com