رمضان المبارک

انسانوں کو انسان بناتاہے رمضان

ازقلم: فیاض احمدبرکاتی مصباحی
جامعہ اہلسنت نورالعلوم عتیقیہ، مہراج گنج بازار ترائی ضلع بلرامپور

رمضان المبارک کی آمد ہوچکی ہے ، مساجدیں آباد ہیں ، بازار سج گئے ہیں ، حفاظ تراویح سنانے پر متعین ہیں ، علماء اور سفراءحضرات یا تو اپنے کام کے لیے نکل چکے ہیں یا نکلنے کی تیاری میں لگے ہیں ۔ رمضان کی برکتیں ہر طرف نظر آرہی ہیں ساتھ ہی وہگہما گہمی جو دوسال پہلے ہوا کرتی تھی ، نہیں ہے ۔ عام انسانوں کو ذاتی اخراجات پر کنٹرول کی فکر ہے ، آمدنی نہایت محدودہوگئی ہے ۔ کرونا وائرس نے انسانی معیشت کی ایسی کمر توڑی ہے کہ اسے درست کرنے میں کئی دہائیاں لگ جائیں گی ۔ جنپریشانیوں سے انسانیت ابھی گزررہی ہے اسے خود انسانوں نے ہی اپنے اوپر مسلط کیا ہے ۔ بیماری ، بے روزگاری ، مہنگائی ، تنگدستی ، خوں ریزی ، جنگ وجدال یہ سب کچھ انسانی اعمال ہیں ۔ انسانوں کے اعمال بد کے نتیجے میں یہ ساری پریشانیاں ، دکھ,درد اور مصیبت انسانیت کو اپنے شکنجے میں دبوچے ہوئے ہے ۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب انسان ، انسانیت بھول جاتاہے ، انسانی دلوں سے رحم دلی ، ہم دردی ، محبت ، آپسی میل محبت کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں ۔ غریبوں پر ترحم ، بے کسوں کیامداد ، بے بسوں کا سہارا بننا جیسے انسانی قوت انسانوں سے فنا ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ حیوانیت ، درندگی ، ہوس پرستی ،ربا خوری یا مفت خوری ، بے ایمانی ، بے غیرتی ، بد عہدی ، بے اعتمادی کے جراثیم جنم لیتے تو اللہ تبارک وتعالی اس زمین کوانسانیت کے لیے تنگ وتاریک کرنا شروع کردیتا ہے ۔ انسانی اعمال بد کے نتیجے میں اللہ کی بنائی ہوئی زمین سے مفت میں حاصلہونے والی اشیاء مہنگی سے مہنگی تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ یہ مہنگائی اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک انسان اپنے اعمالدرست نہ کرلے ۔ یا انسانوں میں انسانیت پہونچانے کی ذمہ داری اٹھانے والے افراد ، جو خود کو مسلمان کہتے ہیں ۔ مسلمان ، خود کوانسان بنالیں اور اس پیغام کو ہر ایک انسان تک پہونچانے کا بیڑا اٹھالیں تو یہ عذاب ختم ہوسکتا ہے ۔ اس وقت انسانیت چوطرفہعذاب جھیل رہی ہے ۔ اللہ سے دوری ، احکام الٰہی سے بے رغبتی وبے توجہی ۔ دنیا کی طلب ، اپنے سے کمزوروں پر ظلم وستم ، لوٹکھسوٹ ،جہالت اور جہالت پر غرہ کرنا ، جہالت پھیلانا، علم کی توہین اور اہل علم کی بے عزتی کرنا ، نہ عذاب قبر سے خوف اور نہآخرت کا کوئی تصور رہ گیا ہے ۔ ایک طرح سے ہم مسلمان مذہبی انارکی کے شکار ہوکر رہ گئے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ اس برےحالات اور برے دور سے گزرنے کا احساس بھی ہماری قوم کے ذہن سے محو ہوگیا ہے ۔اسے سب سے سخت عذاب کہنا چاہیے اس قومکے لیے ۔ اگر ہم رمضان المبارک کے تربیتی نظام کو دیکھیں اور اپنے رب کی مربیانہ حکمت پر غور کریں تو ہر عقل وشعور رکھنے والاانسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ رمضان المبارک جہاں عبادت کا ایک مہینہ ہے وہیں انسانوں کو انسانی سانچے میں ڈھالنے کے لیے ایکخوبصورت تربیتی نظام بھی ہے ۔

رمضان المبارک کا تربیتی نظام دراصل ہمیں اپنے خالق کی مرضی کا پابند بناتا ہے ۔ ایک روزہ دار کھانے کی طاقت رکھتا ہے ، اسکے پاس کھانے پینے کی اشیاء بھی بھرپور ہے ، اسائش کی ساری چیزیں اس کے زیر قدم ہیں ، عیش و طرب کا ہر سامان مہیا ہونےکے باوجود اللہ کا بندہ نہ کھاتا ہے ، نا پیتا ہے ، نہ عیش و طرب کی محفلیں سجاتا ہے اور نہ ہی اپنی طبیعت کے مطابق کوئی کامکرنے کا سزاوار ہے ۔ اگر کہیں کوئی چھوٹی سے چوک بھی ہورہی ہے تو وہ اس غلطی کا کفارہ ادا کرنے کو تیار ہے ۔ اس کا جسمکہہ رہا ہے کہ اسے کھانے کی ضرورت ہے ۔ گرمی کی شدت اس سے مطالبہ کررہی ہے کہ جسم کو تروتازہ رکھا جائے لیکن بندہ اپنےجسم کو کھانا، پانی اور دوسری کھانے پینے کی اشیاء نہیں دیتا ہے کیونکہ اس کے دماغ میں یہ بات رہتی ہے کہ ہمیں اللہ نے دنمیں کھانے پینے اور بیوی کے قریب جانےسے منع کررکھا ہے ۔ سال بھر ہر موقع پر جھوٹ کی جھڑیاں لگانے والا بندہ رمضان المبارککے آتے ہی جھوٹ سے دور بھاگتا ہے اور اگر کبھی زبان سے کوئی جھوٹ نکل جائے تو اس پر پچھتاوا ظاہر کرتاہے ۔ سال کے گیارہمہینے محنت ومشقت سے مال کمانے والا اس مہینے میں اپنے رب کی رضا کے لیے بڑی خوشی کے ساتھ اپنا کمایا مال اللہ کی راہ میںخرچ کرتا ہے ۔ مال کی محبت یقینا کہیں نہ کہیں سے روکاوٹ بننے کی کوشش کرتی ہے لیکن اللہ کی ذات پر ایمان لانے والا بندہ ساری رکاوٹوں کو توڑ کر اللہ کے حکم پر اپنا سب کچھ قربان کرتا ہے ۔ اگر محبت الہی اور احکام الٰہی کا یہ حصہ کمزور ہوا ہے تواس پر غور وفکر کرنی چاہیے ۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس نکتے پر غور کریں کہ اللہ کی محبت اور اللہ کے حکم پر کوئی اور شیئکیوں کر غالب آگئی ہے ۔ دنیا کی محبت حکم الٰہی پر کیسے غالب آسکتی ہے ؟

رمضان المبارک میں ایک بندہ مومن صرف روزے ہی نہیں رکھتا ، بلکہ مومن بندہ کثرت سے نمازیں پڑھتا ہے ، قرآن پاک کی تلاوتکرتاہے ، تسبیح وتہلیل میں اپنا وقت گزارتا ہے ، غریبوں کی امداد کرتاہے ، مدارس اسلامیہ کو فنڈ مہیا کراتا ہے ، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کرتا ہے ۔ یہ سارے کام پورے سال ہوتے ہیں لیکن رمضان المبارک میں تعداد اور کیفیت کے اعتبار سے اس میں بے پناہ برکتیںہوتی ہیں ۔ اگر غور کریں تو یہ سارا کام ان کی زمین کو جنت نشان بنانے کے لیے ہے ۔ معاشرے سے شرارتیں یا تو ختم ہوجاتی ہیں یاکم ہوجاتی ہیں۔ چور اچکے بد معاش سب کے دلوں میں انسان بننے کا جذبہ کہیں نہ ضرور انگڑائیاں لینے لگتا ہے ۔ ہمارے پیارے نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی فطرت کو مہمیز کرنے اور انسانیت کو انسانی زندگی عطا کرنے کے لیے انمول نسخے عطا فرمائے ۔ یہاں ایک حدیث پاک کا ترجمہ نقل کرکے ہم آگے کی بات کرتے ہیں ۔

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں ۔ جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان ، آنکھ اور زبان جھوٹ سے روزہرکھیں ، اور پڑوسی کو تکلیف پہونچانا چھوڑ دو ، تم پر وقار رہو اور تم میں سکینت رہنی چاہیے ۔ روزہ اور غیر روزہ کا دن برابر نہبناءو ۔( شعب الایمان )

روزہ صرف بھوکے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ اپنے نفس کو اپنے رب کے فرمان کے مطابق کردینے کا نام ہے ۔ روزہ ایسا ہوکہ دنکے کسی بھی حصے میں حالت روزہ میں کھانے کا شوق چغلی کھانے تک کے لیے بھی آمادہ نہ ہو ۔ لذیذ سے لذیذ کھانا دیکھ کر بھیاشتہا نہ ہو ۔ مشروبات کے سمندر میں بھی پیاس نہ جاگے ۔ یہ تو صرف پیٹ کا روزہ ہے اسی طرح جسم کے ہر حصے کا روزہ ہوناچاہیے نفس پر سختی کے جتنے مراحل ہوسکتے ہیں وہ سب طاری ہونے چاہیے ۔ آنکھ کسی غلط چیز کودیکھنے کی روادار نہ ہو ۔ کاناچھی باتوں کے سوا اور کچھ سننا گوارا نہ کرے ۔ دماغ میں خوف الہٰی کے سوا اور کوئی سودا نہ سمائے اور دل میں محبت الہیکا طوفان ایسے تھپیڑے لے رہاہوکہ دنیا کی ہر محبت خس وخاشاک کی طرح یاد الٰہی کے ساحل پر بے حیثیت تنکوں کی مانندخاکستر ہو جائیں ۔ زبانیں پابند عہد ہو ، دل میں وساوس کا گزر نہ ہو ۔ پیروں میں محبت الہی کی زنجیر پڑجائیں ۔پیر اٹھے تو محبتالہی میں اور کہیں رک جائے تو رب کی رضا کے لیے ۔ روزہ رکھ کر اپنے آپ پر مسکینیت طاری رکھنا روزہ دار کے لیے کیسے اچھاہوگا کہ اس نے کھانا پینا اپنے رب کے لیے چھوڑا ہے ۔ چہرے سے طمانیت قلب کا اظہار ہونا چاہیے۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com