تحریر: جاوید اختر بھارتی
سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین، محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو۔پی۔
روز وشب کی گردش اپنی ہمیشہ کی رفتار کے مطابق چلتے ہوئے پھر رمضان المبارک کے مقدس مہینہ تک آپہونچی ہے ۔ اللہ تعالی نے اس مہینہ کو اور اس مہینہ کے دن اور اس کی راتوں کو دوسرے دنوں اور راتوں سے ایک خاص امتیاز بخشا ہے ۔ یہ نیکیوں کی سودا گری کا مہینہ ہے ، اس ماہ میں ہر نیکی اور طاعت کا بھاؤ بڑھادیا جا تا ہے ، اور بڑھانے والا وہ ہے جس کے یہاں لامحد ودخزانہ ہے ، جس کے یہاں لیت ولعل نہیں ہے، جس کے یہاں بخل وامساک نہیں ہے ، جس سے عہد شکنی کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، جس کے یہاں سود و زیاں کا کوئی مسئلہ نہیں ۔ اس کے دربار سے جو وعدہ صادر ہوتا ہے وہ بڑھ چڑھ کر پورا ہوتا ہے، عالم قدس میں اس مہینہ کا خاص اہتمام ہے، اہل ایمان کی دائمی قیام گاہ "جنت” کو اس ماہ میں نیا رنگ و روغن بخشا جا تا ہے ، یہ مہینہ ایمان وعمل کی باد بہاری کا مہینہ ہے ، اس مہینہ میں صرف آنے والوں کا ہی اعزاز واکرام نہیں کیا جا تا ، بلکہ منہ موڑ نے والوں کو بھی پکار پکار کر بلایا جا تا ہے، کہ برائی کی طرف دوڑنے والے ٹھہرو!! ذرا دیکھوتمہارے لئے کیا کیا انتظام ہے؟
اللہ اللہ! کیا شان کریمی ہے کہ جو آقا ہے، خالق و مالک ہے، قادر مطلق ہے ،سب کچھ اختیار رکھتا ہے ، سب سے بے نیاز ہے ، وہ اپنے بندوں کو ، غلاموں کو ، بندیوں کو ، باندیوں کو پکارتا ہے ، بلاتا ہے ، ان کو بلاتا ہے جو بے بس اور محتاج ہیں ، لیکن مالک کی شان رحیمی نے ایک محدود اور مختصر سا اختیار بخش دیا ہے ، تو اس کے بل پر لگتے ہیں سرکشی کر نے ، انھیں بھاگنے والے غلاموں کو اپنے لطف وکرم سے بلاتا ہے کہ آؤ میں تمہیں معاف کرنےکے لئے تیار ہوں۔
قربان ہونے اور مر مٹنے کا مقام ہے! کہاں ہیں بوجھ سے دبے ہوئے بندے؟ کہاں میں آفت کے مارے ہوۓ غلام؟ کہاں میں روزی سے پریشان بھوکے؟ کہاں ہیں رحم وکرم کی آس لگائے ہوئے مساکین؟ کہاں ہیں زمانے کے ٹھکرائے ہوئے فقراء؟ آئیں ، آگے بڑھیں ، قریب ہو جائیں، ہاتھ بڑھائیں ، دامن پھیلائیں ، ما نگتے جائیں اور پاتے جائیں، بخشش عام ہے، رحمت تمام ہے ،محروم وہی ہے جو اس دریائے فیض کو بھی پا کر محروم رہے، بدقسمت وہی ہے جو رب عالی کی پکار پر بھی سوتار ہے اور اس کی آنکھ نہ کھلے ۔
اے دنیاوی آفات میں مبتلا انسانو ! تم اپنے مصائب کا علاج اور مشکلات کا حل کہاں ڈھونڈ رہے ہو؟ تمہارے معاملات کا سرا یہاں اس عالم میں نہیں ہے، ان کا سراعالم غیب میں ہے، عالم غیب ہی کے اشارے پر یہاں سب کچھ ظاہر ہوتا ہے، یہاں کی تدبیر میں کچھ نہیں ہیں اگر وہاں کا اشارہ صادر نہ ہو! اپنی جد و جہد کا رخ ادھر ہی پھیر دینے کی ضرورت ہے،عالم غیب تک رسائی اعمال غیب ہی سے ہوتی ہے،خواہ وہ ذکر وعبادت ہو یا حسن سلوک اور اخلاق حسنہ ہوں ، یا دعاء ومناجات ہو۔ ( اس کی جناب میں کلمہ طیبہ پہو نچتا ہے اور عمل صالح اس کو اوپر اٹھا تا ہے )
کلمۂ خبیثہ ( کفر ) اور اعمال بدتو پستی میں پھینک دئے جاتے ہیں ، ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے نہیں جاتے ہیں ۔إنّ الذين كذبوا بآياتنا واستكبروا عنها لاتفتح لهم أبواب السماء ولا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل في سم الخياط ، بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ،ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے، تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے ۔
تو ایمان والو! اصول یہی ہے ، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کلمہ طیبہ اور اعمال صالحہ عالم غیب کے حدود مملکت میں داخلہ پاتے ہیں ، ہر الجھاؤ کے سلجھاؤ اور ہر مصیبت سے راحت اور ہر کلفت سے نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ آدمی کے قلب سے ، زبان سے ، ہاتھ پاؤں سے ، آنکھ کان سے اور جسم و جان سے اچھے اعمال کا صدور ہو۔ یہی اعمال آغوش رحمت میں پہونچ کر اس دنیا کے حالات کو درست کرائیں گے ، اور اس کے لئے رمضان کا مبارک مہینہ بہت ہی ساز گار ہے۔
روزہ کا اہتمام کر یں ، روزے کو مکروہات سے بچانے کا اہتمام کریں ، یہ عبادت دن کی ہمہ وقت عبادت ہے ، اس کو فضولیات اور گناہ کے کاموں میں مبتلا ہوکر برباد اور بے روح نہ بنائیں ، دنیاوی کاموں کو گھٹا کر عبادت کے کاموں کو بڑھائیں ، قرآن کریم کی تلاوت ، ذکر اللہ کی کثرت ، مساجد میں حاضری اور تراویح کی پابندی کا اہتمام کریں ۔ہوسکتا ہے کہ یہی محنت سال بھر کی برکتوں کو سمیٹ کر آپ کے دامن میں ڈال دے، اور پھر پورے سال اس سے آپ مستفید ہوتے رہیں ، یہ تجربہ ہے کہ اعمال خیر کے اعتبار سے جس کا رمضان بخیر و عافیت گزر گیا وہ پورے سال اس خیر و عافیت کا فائدہ پا تا رہتا ہے۔