نتیجۂ فکر: غلام احمد رضا نیپالی
جو کیا کرتے ہیں سرکار سے الفت بے لوث
ان پہ سرکار کی ہوتی ہے عنایت بے لوث
عشقِ مختارِ دو عالم میں ہی مرنا جینا
ہر عبادت میں یہ بیشک ہے عبادت بے لوث
رب کا فرمان یہ کہتا ہے بروزِ محشر
ہوگی سرکار دو عالم کی شفاعت بے لوث
روح جب جسم سے ہو میرے جدا اے مولی
لب پہ قرآں کی رہے میرے تلاوت بے لوث
ناز کرتے ہیں مقدر کے دھنی بھی اُن پر
آپ کی جن کو ہوئی شاہ زیارت بے لوث
مدتوں سے ہے یہی ایک تمنا دل میں
دیکھ لوں میں کبھی سرکار کی تربت بے لوث
ہر طرف چھا گیا خوشیوں کا سما عالم میں
جب ہوئی سرورِ عالم کی ولادت بے لوث
اس کا ثانی نہیں ملتا ہے کہیں عالم میں
جس نے پائی تری سرکار خلافت بے لوث
جتنے آئے ہیں نبی دہر میں اے پیارے نبی
آپ کی لے کے سبھی آئے بشارت بے لوث
ہے وہی راہِ ہدی اور وہ ہے راہِ جناں
آپ نے کی ہے جو سرکار نصیحت بے لوث
دیکھ آئے ہیں جو سرکار کا نوری روضہ
ان پہ واجب ہوئی سرکار کی جنت بے لوث
دیکھ کر چہرہ ترا چاند بھی شرماتا ہے
ایسی اللہ نے بنائی تری صورت بے لوث
وہ بھٹک سکتے نہیں راہِ ہدایت سے کبھی
جو پڑھا کرتے ہیں سرکار کی سیرت بے لوث
جس گھڑی ہم نے پکارا ہے مدد کو آقا
اس گھڑی غیب سے کی آپ نے نصرت بے لوث
گھر میں قرآں کی تلاوت جو کیا کرتا ہوں
ہے اسی دم سے ہی گھر میں مرے برکت بے لوث
نعت سرکار دوعالم کا یہ سب صدقہ ہے
دل سے کرتی ہے جو دنیا مری عزت بے لوث
آپ اول بھی ہیں آخر بھی ہیں ظاہر باطن
اس میں اللہ تعالیٰ کی ہے حکمت بے لوث
ڈوبے سورج کو بلالیں وہ اگر چاہیں تو
رب نے کی ایسی عطا شاہ کو عظمت بے لوث
پل میں وہ عرشِ بریں جاکے چلے آتے ہیں
ایسی سرکار دو عالم کی ہے سرعت بے لوث
اس طرح سے نہ زمانے میں کوئی کرتا ہے
جس طرح شاہ کیا کرتے ہیں شفقت بے لوث
خوف محشر کا نہیں ہوتا کبھی بھی اس کو
جس کو سرکار سے ہو جاتی ہے نسبت بے لوث
باغِ سرکار کے ہیں پھول حسن اور حسین
اور علی زہرا سے ہے باغ میں نکہت بے لوث
جائے گا خلدِ بریں حشر کے دن وہ بیشک
جس کی سرکار سے ہو جائے ضمانت بے لوث
شکراس کا نہ ادا ہوگا کبھی بھی ہم سے
ربِ کعبہ سے جو حاصل ہوئی نعمت بے لوث
خوب آتا ہے مزہ پڑھنے میں لکھنے میں ہمیں
ایسی سرکار کی مدحت میں ہے لذت بے لوث
بھول جائے گا زمانے کے ہر اک شربت کو
عشقِ سرکار کا گر پی لے تو شربت بے لوث
جب بھی آئی ہے غریبوں پہ مصیبت آقا
آپ نے کی ہے غریبوں کی حمایت بے لوث
دور سے اپنے غلاموں کی وہ سن لیتے ہیں
کیسی ہے شاہِ مدینہ کی سماعت بے لوث
کیسے کر پائے کوئی عظمتیں سرکار بیاں
خود خدا کرتا ہے جب شاہ کی مدحت بے لوث
لا مکاں کے بنے مہمان شہ کون و مکاں
فضل رب سے اُنہیں حاصل ہے یہ رفعت بے لوث
دونوں عالم کی بھلائی تُجھے حاصل ہوگی
ذکرِ سرکار کی کر ہر گھڑی کثرت بے لوث
دونوں عالم کی بھلائی کی اگر خواہش ہے
کیجئے رحمتِ عالم سے محبت بے لوث
حشر کی دھوپ میں ٹھنڈک تُجھے حاصل ہوگی
دل میں ہے تیرے اگر شاہ کی چاہت بے لوث
نعت پڑھ نعت سے میٹھی تری نسلیں ہوگی
نعتِ سرکار میں ہے ایسی حلاوت بے لوث
پہلی تصدیق پہ صدیق سے آقا نے کہا
ہے تری دہر میں بوبکر صداقت بے لوث
فیصلہ ہر گھڑی انصاف کا ہوتا ہے وہاں
اے عمر آپ کی ایسی ہے عدالت بے لوث
دہر میں اس کی کہیں بھی نہیں ملتی ہے مثال
ایسی عثمانِ غنی کی ہے سخاوت بے لوث
نسبتِ سرورِ عالم کے بدولت ہی ملی
آپ کو حیدر کرّار شجاعت بے لوث
چار یارانِ نبی آپ ہیں قسمت کے دھنی
آپ نے پائی ہے سرکار کی صحبت بے لوث
دہرمیں جس کی کہیں بھی نہیں ملتی ہے مثال
دس محرم کو ہوئی ایسی شہادت بے لوث
سارے ولیوں کے ہے گردن پہ ترا غوث قدم
تُجھ کو ہے ایسی عطا رب سے ولایت بے لوث
ہند کے راجا مرے خواجہ پیا شاہ معین
دینِ احمد کی ہوئی تُجھ سے اشاعت بے لوث
چاہیے گر تُجھے اللہ تعالیٰ کی خوشی
اپنے ماں باپ کی کر ہر گھڑی خدمت بے لوث
آنے والی مری نسلیں بھی سدا کرتی رہیں
وجہِ تخلیق دوعالم سے محبت بے لوث
دین کی علم سے میں کرتا رہوں گا خدمت
دے مرے علم میں اللہ تو برکت بے لوث
عشقِ سرکار میں کر ساری عبادت احمد
چاہیے گر تُجھے اللہ کی رحمت بے لوث