نتیجۂ فکر: غلام احمد رضا نیپالی
عشقِ آقا میں گزاروں زندگی شام و سحر
اور کروں میں اُن کے در پر نوکری شام و سحر
شہر میں سرکار کے رہنے کو مل جاتا اگر
میں بھی اُن کے در پہ دیتا حاضری شام و سحر
کیسا ہوتا ہے اندھیرا کچھ پتہ چلتا نہیں
اس قدر ہے شہرِ شہ میں روشنی شام و سحر
کیوں بھلاجائیں گےہم دربارمیں غیروں کی جب
دے رہے ہیں ہم غلاموں کو نبی شام کو سحر
نعتِ سلطانِ مدینہ گنگنانے کے سبب
مجھ کوملتی ہےجہاں کی ہرخوشی شام وسحر
کیوں ہمیں ہوخوف نجدی اور وہابی سےکبھی
کرتے ہیں اختر رضا جب رہبری شام و سحر
میرے تن من کو اےاحمد ملتا ہےچین و سکوں
اس لیے لکھتا ہوں میں نعت نبی شام و سحر