خیال آرائی : فرید عالم اشرفی فریدی
رنج و غم دل سے وہ مٹاتی ہے
خوب خوشیاں مجھے دلاتی ہے
دل مرا جھومتے ہوئے جائے
پاس جب ہمنشیں بلاتی ہے
بات کیا ہے اداس کیوں آخر
اے صنم کیوں نہیں بتاتی ہیں
سانسیں رک جاتیں ہیں اچانک ہی
جام دیدار جب پلاتی ہے
پہلے تو پیار سے بلاتی تھی
اب وہ آنکھیں مجھے دکھاتی ہے
تیری فرقت سہی نہیں جاتی
کیوں بھلا خواب میں تو آتی ہے
کر نہیں سکتا میں بیاں تم سے
میرا دل کتنا وہ دکھاتی ہے
دونوں طرفہ فریدی الفت ہو
تب کہیں چاہ رنگ لاتی ہے