ازقلم: فیصل قادری گنوری
پیامِ حق ہے پیامِ وارث
خدا ہی جانے مقامِ وارث
ہیں اُس کے وارث رسولِ اکرم
جو ہوگا دل سے غلامِ وارث
بھٹک نہیں سکتا راہِ حق سے
جِسے میسر ہو جامِ وارث
ہے عشق کا بس یہی تقاضا
زباں پہ ہر دم ہو نامِ وارث
پھر آیا سالانہ عرسِ اقدس
سجی ہے محفل بنامِ وارث
غرض اُسے کیا جہاں سے فیصل
ہے جس کے دل میں قیامِ وارث