تحریر محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف
چئیرمین تحریک علمائے بندیل
روشن مستقبل دہلی
آج کئ سالوں بعد جب کافی دیر کوئی سواری نہ ملی تو ہماری طرح ہی انتظار کر رہے ایک صاحب نے کہا کہ بھائی صاحب ٹرک پر بیٹھ لیتے ہیں ورنہ رات ہو جائے گی، ہم نے کہا ٹھیک ہے روکیے، انھوں نے دو تین ٹرکوں کو ہاتھ دیا، شاید ٹرک والوں کو ہماری صورت پسند نہ آئی اور بغیر توجہ دیے کالی سڑک روندتے ہوے منزل کی طرف رواں دواں رہے ، کچھ دیر بعد ایک ٹرک رکا اور ہم دونوں سوار ہوگیے، ٹرک میں بیٹھتے ہی سامنے کے شیشے پر نظر پڑی تو ڈرائیوروں کی رنگین مزاجی پر بے ساختہ ہنسی نکل گئی، پورے شیشے کے بالائی حصے اور طرفین کے دروازوں اور پیٹھ پیچھے الغرض ہر جگہ فلمی ایکٹریس کی تصاویر آویزاں تھیں، اکثر کا لباس دلہنوں والا تھا،شاید ہماری قسمت اچھی تھی کہ ڈرائیور نے کوئی گانا نہیں لگایا، اکثر اوقات بسوں، ٹرکوں اور آٹو رکشا والوں کو نہایت ہی قبیح گانے بجاتے اکثر لوگ دیکھتے ہی رہتے ہیں –
ہمیں شاعری کی شد بد تو نہیں ہے لیکن ان تصاویر کے ساتھ ہندی میں لکھے گیے اشعار پر نظر پڑی تو شیخ سعدی اور قوال والی فیلنگز ہمارے دل میں اٹھنے لگی، لیکن جملوں پر نظر گئی تو ہنسی مزید بڑھ گئی، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں –
گھر کب آؤگے
تم کب آؤگے،
اب آن ملو سجنا
ساجن کب آؤگے
تیری یاد آرہی ہے
اے صنم تو جنت کی حور ہے
کمی یہی ہے کہ مجھ سے دور ہے
حسن وہ جلوہ ہے جو دنیا کو جلا ڈالے
نظر بھر کے دیکھ لے تو دیوانہ بنا ڈالے
ہمیں محبت کے سوا کچھ نہیں آتا
تمہیں محبت کرنا نہیں آتا
جینے کے دو ہی طریقے ہیں
ایک تمہیں نہیں آتا ایک ہمیں نہیں آتا –
چلتی ہے گاڑی اڑتی ہے دھول
جلتے ہیں دشمن کھلتے ہیں پھول
اگر آپ نے کبھی ٹرک پر سفر کیا ہے تو آپ کو اس کا بخوبی اندازہ ہوگا، یہ تو ٹرک کی اندرونی صورت تھی، باہر کی صورت بھی کمال کی ہوتی ہے –
جیسے A بچا K ،بری نظر والے تیرا منھ کالا، جلو مگر چراغ کی طرح، مالک 1، 13 سہارا، دیکھ مت پگلی پیار ہو جائے گا، پھر ملیں گے، لٹک مت ٹپک جائے گا، ہماری چلتی ہے لوگوں کی جلتی ہے، ساؤدھانی ہٹی، پوڑی سبزی بنٹی (یعنی دنیا سے نکل گیے) وغیرہ وغیرہ جملے بھی خوب ہنسنے پر مجبور کرتے ہیں –
نظر کا فریب
ٹرک ڈرائیور نے ایک جگہ ٹرک روکا تو ہم نے سائڈ گلاس پر نظر ڈالی، چونک کر ہم پیچھے ہوگیے، کیونکہ سائڈ گلاس میں ایک اسکارف باندھے ہوئے لڑکی بڑی غور سے گھورے جارہی تھی، ایسا لگا کہ یہ ہمارے پیچھے ہی کوئی ہے، لیکن ٹرک میں ہم دو لوگ ہی تھے، پھر خیال آیا شاید پیچھے کوئی گاڑی ہوگی، لیکن گاڑی چلی اور ڈرائیور نے اوور ٹیک کرتے ہوئے ٹرک آگے نکالا تو ہم گلاس کی سائڈ دوبارہ جھک گیے صورت حال اس مرتبہ بھی وہی تھی بڑی غور سے دیکھے جارہی تھی، ہم نے کہا اتنے اتفاق تو نہیں ہو سکتے، پھر نعیمی صاحب اور مولانا توصیف صاحب جیسے ہم خوبصورت بھی نہیں، پھر کچھ سمجھ آیا اور پیچھے دیکھا تو سائڈ گلاس پر نظر آنے والی محترمہ کی تصویر آویزاں تھی،اور یہ ساری کرامات انھیں تصویری محترمہ کی تھیں، اس بار ہمیں اپنے آپ پر ہنسی آگئی، کبھی کبھی ایسے حادثات بھی ہوتے ہیں –
رنگین زندگی اور شراب و شباب –
ہمارے گاؤں میں بھی کچھ مسلم ڈرائیور ہیں، ڈرائیوروں کی زندگی جہاں مشکل ہوتی ہے وہیں انکے طرز زندگی کے مطابق عیش و عشرت والی بھی ہوتی ہے، ہمیشہ ہوٹلوں کا کھانا کھاتے ہیں، ان ہوٹلس کو” ڈھابا” کہا جاتا ہے، یہاں صرف کھانا نہیں ملتا بلکہ چرس، گانجا، افیم، ڈرگس، شراب کے ساتھ ساتھ شباب کا بھی انتظام ہوتا ہے، ٹرک ڈرائیور جتنا کماتے ہیں انھیں ہوٹلوں کے بند کمروں میں لٹا آتے ہیں، جو بچا کر گھر لاتے ہیں وہ صرف ٹرک میں بیٹھنے والے مسافروں کا کرایا ہوتا ہے، اچھے خاصے بچے جن میں برا عمل نہیں ہوتا ٹرک ڈرائیور یا کنڈکٹر (خلاصی) بن کر سارے عیب سکیھ جاتے ہیں، ٹرک والے خود کہتے ہیں کہ اگر ڈرائیور لانگ روٹ کی گاڑی چلا رہا ہے اور بد اعمالی کا شکار نہیں ہے تو دو سال ہوتے ہوتے وہ اپنا خود کا ٹرک خرید لے گا، ہمارا ایک غیر مسلم ساتھی ہے اب تو نہیں معلوم لیکن قریب دو سال قبل ملاقات میں اس نے بتایا کہ ماہانہ تیس سے 50 ہزار تک کما لیتے ہیں، راستے کا خرچ مالک دیتا ہے، جتنے مسافر بٹھا لیں یا سو دو سو کلومیٹر رینج کا بھاڑا مل جائے وہ سب ہمارا ہوتا ہے اچھا حساب بن جاتا ہے نیز پھر ڈیزل بھی چوری کر لیتے ہیں، کئی کئی کلو میٹر گاڑیاں نیوٹرل چلا کر ڈیزل کی بچت کرکے بیچ دیتے ہیں –
قوم مسلم اس لائن میں کافی پائی جاتی ہے لیکن لانگ روٹ کی گاڑیاں اور اس راہ کی تباہ کاریاں ہماری ماں بہنوں کی زندگی اجیرن بنا دیتی ہیں، کاش ہمارے لوگ اس آمدنی کا استعمال درست جگہوں پر کریں تو بہت کچھ بہتر ہو سکتا ہے، چونکہ یہ طبقہ تعلیم سے تقریبا عاری ہوتا ہے اس لیے زیادہ آگے کی فکر نہ کرکے پیسہ ہاتھ آتے ہی اڑانے کا شوق رہتا ہے –
ملک کی جان ہیں ڈرائیور –
کسی بھی ملک میں سامان کی منتقلی کا کام ٹرانسپورٹ کرتا ہے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ یہ ٹرانسپورٹ سسٹم اگر نہ ہو تو ہم ملک میں اشیائے خوردنی سے لے کر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز کے لیے ترس جائیں، ہم ٹرانسپورٹ سسٹم کو ملک کی ریڈھ کی ہڈی کہہ سکتے ہیں، اور اس سارے نظام کی جان ٹرک ڈرائیوروں کو کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا –
ٹرک ڈرائیور رات دن ایک کرکے چوبیسوں گھنٹے آنکھیں کھلی رکھ کر کام کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت سارے ایکسیڈنٹ بھی ہوتے ہیں، ہم کچھ اعداد و شمار پیش کرتے ہیں تاکہ آپ ان کی پرخطر زندگی سمجھ سکیں –
14 فروری 2021 کو اکنامک ٹائمس (Economic Times) میں ایک خبر عالمی بینک کے حوالے سے شائع ہوئی تھی جس کا ماحصل پیش ہے – اخبار لکھتا ہے "انڈیا میں دنیا بھر کی صرف ایک فیصد گاڑیاں ہیں، لیکن سڑکوں پر گاڑیوں کے حادثات کی وجہ سے دنیا میں ہونے والی 11 فیصد اموات ہندوستان میں ہوتی ہیں۔ بھارت میں سالانہ تقریباً 4.5 لاکھ سڑک حادثات ہوتے ہیں، جن میں 1.5 لاکھ لوگ مر جاتے ہیں” ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’سڑک حادثات میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہندوستان میں ہوتی ہیں۔ انڈیا میں ہر گھنٹے میں 53 سڑک حادثات ہوتے ہیں اور ہر چار منٹ میں ایک موت ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں بھارتی سڑکوں پر 13 لاکھ افراد ہلاک اور 50 لاکھ زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ہندوستان میں سڑک حادثات کی وجہ سے 5.96 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے جو کہ مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے 3.14 فیصد کے برابر ہے۔
اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرک دڑائوروں کا کام آسان نہیں ہے، کئ کئ روز ہلکی نیند لیتے ہوئے گاڑی چلانا اور کچا مال وقت پر پہنچانا لازمی ہوتا ہے، ایک تو ننید کا غلبہ دوسرے منشیات کا استعمال ان ہونے والے حادثات کی وجہ ہوتے ہیں، کاش نشہ آور چیزوں پر حکومت سختی سے پابندی کرے تو نہ صرف سڑک حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ ملک کے لاکھوں افراد کو منشیات کے استعمال سے روکا بھی جا سکتا ہے –
16/11 /2021