تضمین اشرفؔ
نتیجہ فکر: محمد اشرفؔ رضا قادری
مدیر اعلی سہ ماہی امین شریعت
شعور و آگہی کے بحر کا تیراک ہو جاتا
کم از کم اپنی ہستی کا مجھے اِدراک ہو جاتا
گلوں میں رہ کے سبزہ زار کی پوشاک ہو جاتا
اگر قسمت سے میں ان کی گلی میں خاک ہو جاتا
غمِ کونین کا سارا بکھیڑا پاک ہو جاتا
تجلی حسن کی جو دل کے کاشانے میں آ جاتی
بہارِ زندگی اس دل کے تہ خانے میں آ جاتی
رمق عشق و وفا کی اُن کے دیوانے میں آ جاتی
ہوائے دامنِ رنگیں جو ویرانے میں آ جاتی
لباسِ گل میں ظاہر ہر خس و خاشاک ہو جاتا
کلی خوش رنگ ہوجاتی دلِ عاشق کے گلشن کی
سکونِ دائمی دیتی ہوائیں اُن کے مسکن کی
چمک ضوبار کرتی دل کو اُن کے روئے روشن کی
ہوا دل سوختوں کو چاہیے تھی ان کے دامن کی
الہی صبح محشر کا گریباں چاک ہو جاتا
شعاعِ نور و رحمت پھوٹتی ایوانِ رحمت سے
نوازے جاتے اُس کی دید کرنے والے خلعت سے
دمک جاتی حیاتِ بندگی آقا کی سنت سے
چمک جاتا مقدر جب درِ دنداں کی طلعت سے
نہ کیوں رشتہ گہر کا ریشۂ مسواک ہو جاتا
سرِ منزل عقیدت کے حوالے سے پہنچ جاتے
درِ میخانہ تک بس ایک پیالے سے پہنچ جاتے
قمر کے گرد ہم تو اس کے ہالے سے پہنچ جاتے
تجلی گاہِ جاناں تک اُجالے سے پہنچ جاتے
جو تو اے توسنِ عمر رواں چالاک ہو جاتا
نہیں ہے شک کہ وہ الفت سے آنکھوں میں جگہ دیتے
حقیقت میں بڑی چاہت سے آنکھوں میں جگہ دیتے
اے اشرفؔ وہ کسی صورت سے آنکھوں میں جگہ دیتے
حسنؔ اہلِ نظر عزت سے آنکھوں میں جگہ دیتے
اگر یہ مشتِ خاک اُن کی گلی کی خاک ہوجاتا