غزل

غزل: ہماری ذات کی وسعت خدا جانے کہاں تک ہے

خیال آرائی: ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج،بارہ بنکی،یوپی

وہ حب جس کی ذکی تمثیل بحرِ بے کراں تک ہے
مآل اس کا بھی صد افسوس بس اک داستاں تک ہے

مکاں سے لا مکاں تک ہے زمیں سے آسماں تک ہے
ہماری ذات کی وسعت خدا جانے کہاں تک ہے

مری خانہ خرابی پر نہ جا قسمت ہے یہ میری
مری تخئیل کی تعمیر بھائی لا مکاں تک ہے

تو پھر کیونکر نہ خوشبو دیں وجود و فن کی میراثیں
علاقہ ہی مرا جبکہ چمن سے گلستاں تک ہے

ملاقاتوں میں تیری والہانہ پن نہیں ملتا
تو کیا تیری محبت محض اے ہمدم زباں تک ہے

گریزاں ہے وہ میرے نام کی پرچھائیوں سے بھی
نہیں معلوم تھا مجھ سے اسے نفرت یہاں تک ہے

نشانہ جس کا بس میرا تنِ نازک ہے اے یارو
رسائی ایسے ہر اک تیر کی اس کی کماں تک ہے

مجھے مت دیکھ تو پرواز کی عظمت پہ رکھ نظریں
مری گردِ سفر تاروں کی دلکش کہکشاں تک ہے

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے