ازقلم: محمد اسلم حسنی
سب بخوبی جانتے ہیں پاکستان کا مطلب کیالا الہ اللہ محمد رسول اللہ یعنی پاک لوگ اور پاک جگہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں دونوں کو ایک دوسرے سے بڑی گہری نسبت ہے اگر ہم پاکستان کو دیکھیں تو ارض پاک بالکل واضح ہے مگر جب اس ملک کے باسیوں کو دیکھتے ہیں تو حیران و ششدر رہ جاتے ہیں یہ لوگ ہرگز بھی اس ارض پاک کا حق ادا نہیں کرتے یہاں منطق جانے والوں کے لئے ایک کلیہ ذکر کرنا چاہوں گا اس نسبت میں تباین کلی کارفرما ہے ریاست اپنا قانون و اصول رکھتی ہے جس کی بنیاد پہ ریاست اپنے تمام معاملات کو بخوبی سلجھا سکتی ہے جس میں منیجمنٹ و ریاست اور عدلیہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے کسی بھی قوم و ملت کو آئین کی پاسداری لازمی ہے جس درخت یا عمارت کی جڑ مضبوط ہو تو اسے زمانے کی تندی کبھی بھی نہیں گرا سکتی بلکہ ایسی قوم دوسری اقوام کا سہارہ بنتی نظر آتی ہے اور ثریائے آسمان نظر آتی ہیں اب آتے ہیں پاک ملک کے باسیوں کی طرف یہ لوگ عجب طرز زندگی رکھتے ہیں جمہوریت حد سے زیادہ ان میں سرایت کار فرما ہے یہ لوگ ہر معاملے میں اپنی مرضی کی دخل اندازی کو ترجیح دیتے ہیں کیا ،کیوں اور کیسے ان کی رگوں میں پیوست ہے معاملے کی تحقیق و جستجو میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے اگرچہ معاملہ قابل غور ہی نہیں ہوتا بلکہ دخل اندازی کبائر معاصی میں سے ہے یہ اس قسم کی فضولیات کو اپنا اعزاز سمجھتے ہیں جیسے انہوں نے کے ٹو سر کر لیا آئین کو مزاح بنا لینا کیونکہ آئین کا نفاذ ندارد قطع نظر آئین و قانون کے چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ غیبت،چغلی اور بہتان ان کا وطیرہ ہے جن میں یہ اپنا ثانی نہیں رکھتے شاید ان کے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا عجلت پسندی دیکھیں ریل کی پٹڑی بند ہو تو یہ قوم جلد بازی میں نیچے سے چھلانگیں لگاتے گزر جائیں گے ان سے کوئی حد برداشت نہیں ہوتی پتہ چلتا ہے جو اتنی جلدی و تیزی سے بندہ گزرا وہ آگے کسی مقام پہ بندر تماشا دیکھنے میں مصروف ہے فارغ العمل لوگ ہیں یہ آفس صرف انجوائے کرنے جاتے ہی۔ اخبار اور چائے میں محو سیاست ہوتے پیں ان کا پسندیدہ مشغلہ سیاست ہے مزے کی بات یہ ہے اپنا گھر اصلاح طلب ہے گورنمنٹ ادارے مکمل فلاپ ہو چکے چاہے وہ پولیس ، سکول، کالج ، ہوسپٹل ،واپڈا یا محکمہ واسہ کوئی بھی ہو وجہ اس ملک کی منیجمنٹ و عدلیہ اور یہ عوام خود ہیں آپ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کا وزٹ کریں آپ کو تنخواہ سو روپے ملے گی اور کام دو سو روپے کا لیا جائے گا تاکہ آپ ملک کو کچھ دے سکیں اور ملک میں اپنے ہونے کا احساس دلائیں مگر یہاں گنگا الٹی بہتی ہے یہ قوم تنخواہ بغیر ڈیوٹی کے لیتی ہے اور کام کرنے کی رشوت لیتی ہے اور اگر کام بغیر پیسوں کرانے کی کوشش کی جائے تو تضحیک ہوتی ہے کتنا سادہ بندہ ہے ابھی تک تو اس کو پتہ ہی نہیں کام کیسے ہوتے ہیں یعنی ریاست اور عوام دونوں سے پیسہ بٹورا جا ریا ہے ملک کا ستیاناس ہمارا شیوہ بن چکا کہاں ہے عدلیہ کہاں ہے قانون کہاں ہیں اس ریاست کے رکھوالے یہ لوگ ریاست کی ایسی کی تیسی کر رہے ہیں ملک کو فائدہ تو کجا اس ملک پہ سراسر بوجھ ہیں کام ٹکے کا نہیں کرتے اور تنخوائیں لاکھ سے دس لاکھ لگتا ہے یہ ملک بنا ہی مجرموں کے لئے ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا سماں ہے خدا را اس ریاست پہ ترس کھائیں اپنے ضمیر جھنجوڑیں لوگوں کے عمل کو دلیل نہ بنائیں اپنے پانچ فٹ قد کا حق ادا کریں کہ قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے انگلی کٹا کر اپنا نام شہیدوں میں شامل کریں اس ریاست و قوم کا حق ادا کریں معاشرے کے سود مند فرد بنیں اور معاشرے کو استوار کرنے میں اپنا حقیقی کردار نبھائیں ایک ذمہ دار باسی و شہری بنیں کیا ہوا جو یہ حکومت و عدلیہ نہیں پوچھتی باری تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے اپنے خالق کے سامنے سرخ رو ہو نے کے لئےایک کامیاب زندگی بسر کریں
یہ لوگ کہتے ہیں ریاست ہماری ماں باپ ہے مگر ریاست کے ساتھ حشر دشمنوں سے بدتر کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا سکتا ہے آج صرف ستر سالوں میں اس ملک کی تقدیر ترریج بتدریج رسوائی و تنزلی کی طرف آ چکی ہے مگر اب بھی یہ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اتنا گند پھیلایا جس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی پتہ نہیں اللہ اس ملک کو کیسے چلا رہا ہے یہ نہیں سوچتے کہ اس وقت ہر پاکستانی بچہ کوئی لاکھ سے زائد کا مقروض ہے خود ہی کو بیچ دیا آگے رہ کیا گیا جس کا مزید انتظار ہے کوئی پرسان حال نہیں مگر یہ نکتہ یاد رکھیں خالق کائنات اس ملک یا قوم کو کیا چلائے جو اپنی بربادی کا سامان اپنے ہاتھوں کیے دیتے ہیں بلکہ رب تو قرآن کی رو سے ایسی قوم کو نشان عبرت بنا کر پیش کرتا ہے جو تا قیامت دوسروں کے لئے نشان عبرت ہوتے ہیں اور اسی سے مہزب اقوام اپنا مستقبل تابناک بنا لیتی ہیں ڈاکٹر اقبال اس قوم کی خوب عکاسی فرمائی
تھے تو آبا وہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو