(52 باونویں عرس صابری بلبل پر خصوصی تحریر)
تحریر: نازش المدنی مرادآبادی
قصبہ سیکری شریف ضلع مظفر نگر یوپی کا ایک مردم خیز اور سرسبز وشاداب خطہ ہے…جہاں صدر الافاضل ،فخر الاماثل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ کے انتہائی چہیتے خلیفہ عمدۃ الاصفیاء، زبدۃ الاتقیاء ، حامی سنت، ماحی بدعت،حضور صابری بلبل ونعیمی گل حضرت علامہ الشاہ حافظ وقاری عبد الطیف نعیمی صابری قدس سرہ العزیز آرام فرما ہیں…یہاں سے فیض وکرم کے دریا رواں ہیں… خلائق کا ہجوم ہمیشہ تانتے باندھے رہتاہے…جو آتا ہے بھر بھر چھولی جاتا ہے…اس دربار سے محرومی ممکن ہی نہیں…مہمان نوازی اور غریب پروری اس خانوادہ کا طرہ امتیاز ہے۔
صاحب خانقاہ حضور صابری بلبل علیہ الرحمہ ایسی عہد آفریں اور فیض رساں شخصیت ہیں…جو کئی خصوصیات و امتیازات کی حامل ہیں… آپ صدر الافاضل قدس سرہ کے خلیفہ ومرید خاص ہیں… خود حضور صدر الافاضل آپ پر بہت نازاں تھے… اور آپ علیہ الرحمہ کی بارگاہ سے آپ کو نعیمی گل کا خصوصی امتیاز حاصل ہے۔
صابری بلبل بارگاہِ صدر الافاضل میں:
بارگاہِ صدر الافاضل میں آپ کی حاضری کا بڑا انوکھا واقعہ ہے۔ جس کو سیدی والد گرامی حضرت مولانا صوفی فراست حسین لطیفی حفظہ اللہ ورعاہ نے کچھ یوں بیان کیا کیا:
بارگاہِ صابر پاک سے صابری بلبل کو جب بحالت خواب حضور صدر الافاضل کی بارگاہ میں حاضری کا اشارہ ملا تو آپ علیہ الرحمہ صبح اٹھتے ہی خواب میں بتاے گئے راستہ کے مطابق ٹرین سے جانب مرادآباد شریف روانہ ہوے، اور اِدھر حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ نے ریلوے اسٹیشن پر اپنے خادمین کو بھیجا اور ساتھ ہی آنے والے مہمان کا حلیہ بھی بتا دیا۔ جیسے ہی حضور صابری بلبل ٹرین سے اترے تو خادمین نے صدر الافاضل کے بتاے ہوے آثار وعلامات سے آپ کو پہچان لیا، اور تانگے میں بٹھا کر دیوان بازار لے چلے۔ جیسے ہی آپ جامعہ نعیمیہ کے مین دروازے پر پہنچے تو حضور صدر الافاضل پہلے ہی سے آپ کے منتظر کھڑے تھے۔ دیکھتے ہی آپ کو سینے سے لگایا۔ پھر مسجد لے جاکر پہلی فرصت میں اپنی غلامی میں داخل فرمایا اور پہلی مرتبہ ہی اپنی جملہ اجازات وخلافت سے سرفراز فرمایا۔
صدر الافاضل کی یہ آپ پر خصوصی عنایت تھی۔ ورنہ آپ علیہ الرحمہ کبھی کسی کو اتنی جلد اجازت وخلافت نہیں دیتے تھے۔ پہلے اس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کر لیتے پھر اگر پورے معیار پر اترتا تو کرم فرماتے۔مگر یہاں چونکہ پہلے ہی سے سارے احوال وافکار مزکیّ ومصفیّ تھے۔ اس واسطہ آپ نے دیری نا کرتے ہوے پہلی مرتبہ ہی آپ کو جملہ اجازات وخلافت سے نوازا۔
سب کے ساتھ یکساں تعلقات:
حضور صابری بلبل علیہ الرحمہ شریعت وسنت پر سختی سے عمل پیرا شخصیت تھی۔ آپ کے قول وفعل اور جملہ معمولات میں اتباع شریعت وسنت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عظیم سنت مبارکہ یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے ساتھ یکساں تعلقات رکھتے اور آپ صَلَّی اللَّہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ سے جو بھی ملاقات کرتا وہ یہ کہتا کہ حضور سب سے زیادہ مجھے محبوب رکھتے ہیں اور مجھ سے محبت فرماتے ہیں۔
اس سنت مبارکہ کے تناظر میں جب ہم سرکار صابر بلبل قدس سرہ کی حیاتِ مستعار کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو آپ علیہ الرحمہ اس سنت مبارکہ پر بھی اِنتہا درجہ عمل پیرا تھے۔
چنانچہ والد گرامی فرماتے ہیں : حضور صابری بلبل علما ومشائخ سے بے انتہا محبت فرماتے اور بڑے حسن سلوک سے پیش آتے اور عام مریدین کے ساتھ بھی شفقت ومحبت برتاؤ فرماتے الغرض یہ کہ جو آپ سے ملاقات کر لیتا اس کی زبان پر یہ کلمات ہوتے کہ حضور سب سے زیادہ مجھ سے محبت فرماتے ہیں۔
حضور صابری بلبل اور غریب پروری:
ایک کامل واکمل شخصیت میں جہاں دیگر اوصاف وکمالات پاے جاتے ہیں۔ وہیں غریب پروری اور اصاغر نوازی کا عنصر بھی حد درجہ موجود ہوتا ہے۔اس حوالہ سے جب ہم سرکار صابری بلبل علیہ الرحمہ کو دیکھتے ہیں تو آپ غریبوں پر انتہائی شفیق ومہربان اور ناداروں کے کے لئے سخی اور غریب نواز نظر آتے ہیں۔
حاجت روائی کے حوالہ سے قبلہ والد گرامی اپنا چشم دید واقعہ بیان فرماتے ہیں :
ایک مرتبہ ہم حضور پیرو مرشد سرکار صابری بلبل علیہ الرحمہ کی بارگاہِ ناز میں بیٹھے ہوے تھے۔ حضرت خطاب فرما رہے تھے۔ تقریر ختم ہونے کے بعد جو حضرات مرید ہونے آے تھے۔پہلے حضرت نے ان کو مرید فرمایا، اس کے بعد مجلس کے آخر میں بیٹھے ہوے ایک شخص کی جانب مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا ” ہاں بتاؤ تمہیں کتنے پیسوں کی ضرورت ہے ، تمہارے گھر تک جانے میں کتنا کرایہ لگ جاتا ہے؟” وہ پریشان شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا حضور میری جیب کٹ گئی ہے ، سب پیسے نکل گئے ہیں اور مجھے گھر جانا ہے۔ آپ نے فرمایا پیسے بتاؤ کتنوں کی ضرورت ہے ؟ اس نے عرض کیا حضور اتنے پیسے چاہیے ۔سن کر آپ نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب میں جتنے پیسے تھے سب نکال کر اس کو عطا فرمایا دیے۔
قارئین ! اس کے واقعہ سے جہاں حضرت کی حاجت روائی کا پتا چلتا ہے وہیں یہ معلوم ہوا کہ آپ صاحب کشف وکرامت بزرگ تھے کہ اس شخص کے بتاے بغیر اس کی قلبی حالات کو جان لیا اور فوراً اس کا مسئلہ بھی حل فرما دیا۔
ع۔۔ جب ان کے گدا پھر دیتے ہیں شاہان زمانہ کی چھولی
محتاج کا جب یہ عالم ہے مختار کا عالم کیا ہوگا
حضور صابری اور احترامِ ائمہ وعلما
اس وقت ائمہ مساجد اور علمائے کرام کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ علماء و ائمہ مساجد کا مظلوم طبقہ جس قدر ظلم وستم کی چکی میں پس رہا ہے اس جانب کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ جب کہ پیدائش سے مرنے تک انسان کے تمام معاملات کو یہی لوگ بحسن وخوبی انجام دیتے ہیں ۔ بچہ پیدا ہوا تو اذان کے لئے امام صاحب کو بلایا جاتا ہے۔ پھر بڑھا ہوا اور لائق شادی ہوا تو نکاح کے لئے امام صاحب کو مدعو کیا جاتا ہے۔اور بعد نکاح اگر بات بگڑ گئی اور طلاق وخلع کا تک معاملہ پہنچ گیا تو اس کےحل کےلئے دارا الافتاء میں انہیں علما ومفتیان کرام کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور جب بوڑھا ہوا اور انتقال ہوا تو کفن دفن سے لے چہلم تک ساری رسومات میں یہی لوگ پیش پیش رہتے ہیں۔مگر افسوس ہے اس قوم پر کہ جو بندہ پیدائش سے مرنے تک کے تمام معاملات بحسن وخوبی اور بے اجرت انجام دے رہا ہے۔ اس کی طرف عوام کی کوئی توجہ نہیں ہے۔چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی خوب خاطر تواضع کی جاتی۔اور ان کو تحائف پیش کر کے خوب عزت افزائی کی جاتی مگر افسوس اس طرف کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔ علماء نوازی کے حوالہ سے حضور صابری بلبل کا کیا کردار تھا۔ آئیے آپ کے مرید صادق کی زبانی ملا حظہ کرتے ہیں۔سیدی والد گرامی دام ظلہ اپنے پیر ومرشدحضور صابری بلبل علیہ الرحمہ کے بابت ارشاد فرماتے ہیں:
پیرو مرشد کی ذات میں دیگر خوبیوں کے ساتھ ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ آپ علیہ الرحمہ علماء وحفاظ کا بہت زیادہ خیال فرماتے، اپنی مجالس میں ان کو خاص پروٹوکول دیتے، مسند پر اپنے پاس بٹھاتے، بہترین کھانے کا اہتمام کرتے، ملاقات کرکے واپس ہوتے تو تحفۃً کچھ رقم بھی عنایت فرماتے۔ کوئی بے روزگار اور پریشان حال ہوتا تو اس کی مسجد ومدرسہ کا بھی انتظام فرماتے۔ بالجملہ یہ کہ خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے نا جانے دیتے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔
قارئیں ! دیکھا آپ نے کہ کس طرح صابری بلبل علما کی عزت افزائی فرماتے اور خصوصی عنایات فرماتے۔اے کاش، ہماری قوم بھی اس چیز کی سمجھ آجائے۔آمین
مریدین کو خاص نصیحت:
قبلہ والد گرامی دام ظلہ العالی فرماتے ہیں :سیدی سرکار صابری بلبل قدس سرہ اپنے مریدین. ومعتقدین کو مخاطب کرکے اکثر یہ نصیحت فرماتے :
” آپ لوگ بھلے ہی کسی پیر صاحب کے مرید ہو مگر کسی دوسرے کے پیر پر کبھی طعن وتشنیع ہر گز مت کرنا کہ جس طرح تمہیں تمہارا پیر پیارا ہے اسی طرح سامنے والے کو بھی اپنا پیر پیارا ہے۔” گویا آپ فرما رہے ہوتے کہ اپنے پیر کو چھوڑو مت اور دوسرے کے پیر کو چھیڑوں مت۔
مشائخ کچھو چھہ وبریلی سے خصوصی لگاؤ :
آپ علیہ الرحمہ مشائخِ کچھوچھہ وبریلی سے قلبی لگاؤ رکھتے اور انتہا درجہ محبت فرماتے۔ یہی وجہ ہے سرکاران کچھوچھہ و بریلی بھی آپ کی شان میں رطب اللسان نظر آتے۔چنانچہ شہزادہ اعلیٰ حضرت سرکار مفتی اعظم ہند مفتی مصطفیٰ رضا خاں قدس سرہ سے لوگوں نے سوال کیا کہ حضور اس دور میں زندہ ولی کون ہے؟ چونکہ ضابطہ ہے "ولی را ولی می شناسد” کہ ولی ،ولی کو پہچانتا ہے۔ اس واسطہ سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے جواباً ارشاد فرمایا: "کہ اس وقت اگر کسی کو زندہ ولی دیکھنا ہے تو وہ سیکری شریف میں قاری عبد الطیف صاحب کو دیکھ لے” اس سے بخوبی اندازہ ہو گیا کہ سرکار مفتی اعظم ہند آپ سے کس قدر محبت فرمایا کرتے کہ اپنے زمانہ کے موجودہ تمام اولیا میں آپ علیہ الرحمہ نے خصوصاً صابری بلبل قاری عبد الطیف علیہ الرحمہ کا انتخاب کیا ورنہ کیا دیگر اولیائے کرام بھی اس وقت موجود تھے جن کی سرکار مفتی اعظم ہند رہنمائی فرما سکتے تھے مگر چونکہ یہ خصوصی نظر عنایت اور محبت تھی۔اس لئے آپ کا انتخاب فرمایا۔
اسی طرح ایک مرتبہ شیخ المشائخ، زبدۃ الاتقیاء حضرت علامہ الشاہ پیر سید مختار اشرف الاشرفی الجیلانی المعروف سرکار کلاں حضور صابری بلبل قدس سرہ کے مریدین میں تشریف فرما تھے، اچانک مریدین کو مخاطب کرکے فرمانے لگے
” مرید تو تم ہو ہم تو بس رسم ادا کرتے ہیں۔”
قارئین! دیکھا آپ نے سرکار کلاں نے آپ علیہ الرحمہ کے لئے آپ کے مریدوں سے کس قدر محبت بھرا جملہ ارشاد فرمایا کہ مرید تو آپ ہی ہو کہ ایک کامل شخصیت کے مرید ہو اور ہم تو بس رسمی پیر ہیں۔ حالانکہ شیخ المشائخ حضور سرکار کلاں خود ایک عظیم شیخ طریقت اور مرشد کامل تھے۔مگر چونکہ آپ کو سرکار صابری بلبل سے قلبی لگاؤ تھا اس واسطہ ا آپ نے اتنا عظیم فقرہ آپ کی شان میں ارشاد فرمایا۔
چند آنکھیں دیکھی کراماتِ صابری بلبل
یوں تو سب سے بڑی کرامت شریعت پر استقامت ہے۔ مگر اس کے باوجود اللہ کے نیک اور پارسا بندوں سے ایسے افعال صادر ہوے ہیں۔ جن سے عقل ورطہ حیرت میں پڑ جاتی ہے۔قبلہ والد گرامی اپنے مرشد کی چند اپنی آنکھوں دیکھی کرامات بیان کرتے ہیں: کہ ایک مرتبہ سیکری شریف میں ہم حضور پیر ومرشد کے اقتداء میں نمازِ عصر پڑھ رہے تھے۔ جب حضرت قیام سے رکوع میں گئے تو کیا دیکھا ہوں کہ اچانک حضرت کا چہرہ میرے سامنے ہے، اورتوجہ فرما رہے ہیں۔ مجھے بڑی حیرانگی ہوئی کہ رکوع میں چہرہ میری جانب کس طرح ہو گیا۔جب کہ رکوع میں تو چہرہ نیچے کی جانب ہوتا ہے۔خیر بعد میں اس توجہ کے نتیجے میں نے خود دیکھے۔ کہ کیسے کیسے مشکل مراحل میں میری دست گیری فرمائی اور میرے تمام مشکل مسائل منٹوں میں حل ہوتے گئے۔
دیکھا آپ نے کہ حضور صابری بلبل نے بحالت رکوع کس طرح اپنے مرید پر نظر عنایت فرمائی۔
اسی طرح والد گرامی ایک اور کرامت بیان کرتے ہیں: کہ ایک مرتبہ ضلع مرادآباد کے ایک گاؤں فتح پور میں جلسہ تھا جس میں علامہ ارشد القادری، علامہ مشتاق احمد نظامی، شیخ الاسلام علامہ سید مدنی میاں جیسے نابغہ عصر علماء ومشائخ مدعو تھے۔ اور ہمارے پیرو مرشد سرکار صابری بلبل کو بطور خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ تل رکھنے کو جگہ نہیں تھی ہر شخص حضرت کے خطاب کے لئے بے تاب تھا۔ بہر حال انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں آپ کرسیِ خطابت پر جلوہ افروز ہوے۔ خطبہ کے بعد اپنی بات کا آغاز اس فقرے سے کیا کہ "جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف نہ لاے تھے تو ہر سمت اندھیرا ہی اندھیرا تھا، اور جب میرے آقا کی تشریف آوری ہوگئی تو سارا عالم نور نور ہو گیا” جب آپ علیہ الرحمہ نے یہ جملہ (جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف نہ لاے تھے تو ہر سمت اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔) ارشاد فرمایا اور انگلی کا اشارہ کیا تو لوگوں نے دیکھا کہ مجمع میں جتنی لائٹیں تھی فی الفور ساری گل ہو گئیں پھر اس کے بعد جب آپ نے یہ فقرہ (اور جب میرے آقا کی تشریف آوری ہوگئی تو سارا عالم نور نور ہو گیا۔) زبان سے ادا کیا اور انگلی سے اشارہ کیا تو ساری لائٹیں جس طرح پہلے روشن تھی پھر روشن ہو گئی۔ اس واقعہ کے شاہد ضلع مرادآباد کے سیکڑوں افراد ہیں۔ یہ چند واقعات بطور مثال تھے ورنہ آپ کی زندگی میں اس طرح کے کتنے واقعات اور کرامات رونما ہوئی اگر ان سب کو لکھا جاے تو مستقل ایک کتاب معرض وجود میں آ سکتی ہے۔
دعا ہے مولیٰ تعالیٰ فیضان صابری بلبل کو مزید عام وتام فرماے۔
آمین بجاہ سید المرسلین۔
نوٹ:- یہ مکمل مضمون فقیر کے والد گرامی حضرت مولانا صوفی فراست حسین لطیفی دام ظلہ کے بتاے ہوے مواد کے مطابق لکھا گیا ہے جو کہ خود حضور صابری بلبل علیہ الرحمہ کے مریدِ خاص ہیں۔