تحریر: نازش مدنی مرادآبادی
ہمارے اسلاف ایک دوسرے کے علم و فضل کے معترف اور مداح ہوا کرتے تھے۔ان کا یہ عمل در حقیقت ایک دوسرے کی فضیلت کا ثبوت اور بعد والوں کے لیے مشعل راہ ہوتا تھا۔کچھ اسی طرح باہمی روابط وتعلقات خلیفہ قطب مدینہ مظہر مفتی اعظم ہند مفتی نانپارہ مفتی رجب علی محدث نانپاروی قدس سرہ اور امام العلماء سند الفقہاء مفتی شبیر حسن رضوی مصباحی علیہ الرحمہ کے بھی ہیں،کہ ان دونوں بزرگوں میں آپس میں بڑے دیرینہ تعلقات اور باہمی محبتیں قائم ودائم تھیں ۔بندہ ناچیز اگر چہ دونوں بزرگوں کی زیارت سے مستفیض نہ ہوسکا لیکن ان دونوں بزرگوں کے فیض یافتہ کئی علماء سے ان کے حوالہ سے بارہا سنا اور پڑھا ذیل میں انہیں واقعات سے کچھ اقتباسات نقل کرتا ہوں جن سے ان دونوں بزرگوں کے آپسی تعلقات بخوبی عیاں ہو جائیں گے۔
تلمیذ امام العلماء حضرت علامہ مولانا شاکر رضوی برہانی زید مجدہ (استاد: دار العلوم منظر حق ٹانڈہ) لکھتے ہیں ” بلبل ہند حضور مفتی نانپارہ علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ علماء تو بہت ملے مگر مدرس صرف ایک ملا اور وہ مفتی شبیر حسن ہیں (معارف بلبل ہند ص:-775)
اسی طرح مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی تدریسی صلاحیت کے حوالہ سے ایک روایت شہزادہ مفتی نانپارہ مولانا محمود نانپاروری کی ذکر کرتا ہوں ” فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مفتی شبیر حسن صاحب مدسہ عزیز العلوم نانپارہ میں منطق کی معرکۃ الآراء کتاب صدرا پڑھا رہے تھے ۔حضور مفتی نانپارہ کچھ دیر چھپ کر سنتے رہے پھر ایک دم سامنے آئے اور فی البدیہہ یہ شعر کہا
صدر سے صدرا نکال قال اقول بھول جا
مکتبہ عشق میں عجب نرالی شان ہے
یعنی اس شعر کو کہہ کر گویا کہ مفتی نانپارہ علیہ الرحمہ نے مفتی شبیر حسن علیہ الرحمہ کی تدریسی شان بیان فرمادی۔
اسی بابت تلمیذ و خلیفہ مفتی نانپارہ مفتی باکردار شاعر اہلسنت حضرت علامہ مولانا مفتی مشتاق قادری عزیزی زید مجدہ اپنے ساتھ بیتا ہوا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں:
"جس زمانہ میں میں مدرسہ عزیز العلوم نانپارہ پڑھتا تھا ایک مرتبہ گھنٹی پڑھ کر جب میرا گزر خانقاہ حسینیہ کے پاس سے ہوا تو مفتی نانپارہ خانقاہ کے دروازے پہ کھڑے تھے تو مجھے اپنے پاس بلا کر پوچھنے لگے کیا پڑھ کر آ رہے ہو میں نے عرض کی شرح جامی تو برملا اس وقت حضور مفتی نانپارہ نے فرمایا ” شرح جامی مفتی شبیر حسن صاحب بغیر مطالعہ کے پڑھا سکتے ہیں”
اللہ اکبر کس قدراعتماد تھا مفتی نانپارہ کو امام العلماء کی تدریس پر کہ بوثوق فرما دیا کہ ملا حسن جیسی معرکتہ الاء کتاب مفتی صاحب بغیر مطالعہ کے پڑھا سکتے ہیں۔
یہ تو چند نظیریں تدریسی صلاحیت کے اعتراف میں تھی اس کے علاوہ چند اقتباسات وہ ذکر کیے جاتے ہیں جو ان دونوں بزرگوں کی مودت ومحنت پر دال ہیں حضرت علامہ مولانا شاکر رضوی برہانی استاد دار العلوم منظر حق ٹانڈہ بیان کرتے ہیں مفتی نانپارہ جب کبھی قصبہ روناہی کے قریب سے گزرتے تو اپنے کسی خادم کے ذریعے مفتی شبیر حسن صاحب تک خبر پہنچا دیتے تو آپ علیہ الرحمہ اگر درسگاہ میں پڑھاتے بھی ہوتے تو چھوڑ کر فوراً مفتی نانپارہ سے ملاقات کے لیے تشریف لے آتے۔
یہ تھیں مفتی نانپارہ کی مفتی شبیر حسن رضوی علیہ الرحمہ کے حوالہ سے والہانہ عقیدتوں کی چند مثالیں اب آئیے ان باتوں کو بھی ملاحظہ کرتے ہیں جس میں امام العلماء کا مفتی نانپارہ سے عقیدتوں کا اظہار ہوتا ہے موصوف مذکور ہی فرماتے ہیں کہ مفتی نانپارہ فیض آباد یا اس کے اطراف میں جب کبھی تشریف لاتے تو مفتی شبیر حسن رضوی علیہ الرحمہ لازمی آپ سے ملاقات کے لیے جاتے۔
یونہی مفتی صاحب علیہ الرحمہ اپنے خاص شاگردوں کو بھی مفتی نانپارہ کی بارگاہ میں بھیجتے اور جس کو مفتی صاحب علیہ الرحمہ بھیجتے تو مفتی نانپارہ اسکو بڑی قدر و اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے اور اس پر خصوصی کرم فرماتے
اسی طرح کی کرم نوازی کا ایک واقعہ موصوف مذکور مزید لکھتے ہیں کی عرس رضوی میں بریلی شریف کے لیے روناہی سے بس جاتی تھی جس میں طلبہ و مدرسین ہوتے تھے ایک سال اتفاق سے ایسا ہوا بہرائچ شریف میں فاتحہ پڑھ کر عشا کی نماز پڑھی گئی اس کے بعد آگے کے لیے روانہ ہو گئے نانپارہ قصبہ کے قریب گزرتے ہوئے ابھی ایک کلو میٹر آگے ہی بڑھے تھے کہ بس پنچر ہو گئی سب لوگ وہیں اتر گئے پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے بننے میں تقریباً ایک گھنٹہ صرف ہوگا استاد محترم علامہ مفتی شبیر علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اتنا وقت لگے گا تو چل کر عزیز العلوم ہو آئیں اگر حضرت مفتی نانپارہ موجود ہوں گے تو حضرت کی زیارت بھی ہو جائے گی اور دست بوسی بھی کر لیں گے استاذ محترم جب چلنے لگے تو پچیسوں اشخاص ساتھ ہو گئے ابھی روڈ سے چند قدم چلے ہی تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت مفتی نانپارہ علیہ الرحمہ خانقاہ حسینیہ کے پاس چند طلبہ کے ساتھ تشریف فرما ہیں اور کھڑا ہونے کا انداز بتا رہا تھا کہ کہ جیسے ہم لوگوں کا انتظار فرما رہے ہیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے حضرت کو پہلے ہی سے معلوم ہو گیا ہو کہ میرے کچھ مہمان آرہے ہیں دست بوسی کے بعد سبھی لوگوں کو مہمان خانہ میں بٹھایا تقریباً دس بجے رات تک قیام رہا استاذ محترم نے اجازت مانگی حضرت مفتی نانپارہ علیہ الرحمہ نے فرمایا ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ فقیر کے غریب خانہ پہ مہمان آئیں اور بغیر کچھ کھائے پیئے لوٹ جائیں پھر چند منٹوں کے بعد ہی دسرخوان لگ گیا اور فرمایا کہ کھاؤ کھانا حاضر ہے ہم سبھی لوگوں نے شکم سیر ہو کر کھایا اور جب رخصت لے کر واپس ہونے کا ارادہ کر رہے تھے اس وقت یہ دیکھ کر حیرت و استعجاب کی انتہاء نہ رہی کہ ساتھ ہی میں چند طلبہ کھانے کی گھٹری اٹھائے چلنے کو تیار ہیں حضرت استادِ محترم نے عرض کیا حضور اس کی کیا ضرورت ہے کھانا تو شکم سیر ہو کر کھا ہی لیا تھا حضرت مفتی نانپارہ نے فرمایا یہ میرے ان مہمانوں کے لیے ہے جو قصبہ نانپارہ میں موجود ہیں اور کسی وجہ سے یہاں نہ آ سکے راستے میں جہاں کہیں انہیں موقعہ ملے کھا لیں گے (معارف بلبل ہند ص:-650،649)
اس واقعہ سے جہاں دونوں بزگوں کی آپس میں محبت معلوم ہوئی(مفتی شبیر حسن رضوی علیہ الرحمہ بس کے خراب ہوتے ہی موقع کی غنیمت سمجھتے ہوئے بارگاہ مفتی نانپارہ میں حاضر ہو گیے) وہیں دوسری جانب مفتی نانپارہ کی دو کرامت بھی دیکھنے کو ملیں ایک تو یہ کہ بغیر کسی کے بتائے آپ کا مہمانوں کا انتظار فرمانا اور جاتے وقت رہ جانے والے کے لیے مہمانوں کے ساتھ زاد راہ بھیجنا دوسری کرامت
شہزادہ مفتی نانپارہ مولانا محمود نانپاروی زید مجدہ فرماتے ہیں کہ امام العلماء فرماتے تھے کہ اعلیٰحضرت قدس سرہ العزیز سرکار تک صحیح معنوں میں مجھے مفتی نانپارہ ہی نے پہچایا ہے
یہ چند وہ واقعات تھے جنہیں بندہ ناچیز کو دونوں بزرگوں کے فیض یافگان علماء نے فون پر بتائے
اس کے علاوہ بھی کافی نظائر اور امثال ہو سکتی ہیں جو ان کے معاصرین نے دیکھیں ہوں گی
دعا ہے اللہ جل شانہ ان بزگوں کا فیضان ہم تمام پر تادیر قائم و دائم فرمائے
آمین بجاہ طہ ویس