سیاست و حالات حاضرہ

کانگریس ،رسّی جل گئی پر بَل نہیں گئے

تحریر: محمد زاہد علی مرکزی، کالپی شریف

کانگریس صدر سونیا گاندھی نے جمعہ(20/8/2021) کو 19 اپوزیشن جماعتوں سے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے متحد ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو اپنی حکومت بنانے کے لیے اپنی مجبوریوں سے بالاتر ہوکر ملک کی آئینی دفعات اور تحریک آزادی کی اقدار پر یقین رکھنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد قومی مفاد کا مطالبہ ہے اور کانگریس اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔
آن لائن اس میٹنگ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی شریک نہیں ہوئی تو وہیں عام آدمی پارٹی نے کہا کہ ہمیں دعوت ہی نہیں دی گئی، اس سے قطع نظر کہ کون شامل ہوا اور کون نہیں، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ سونیا گاندھی کو مسلم قیادت کیوں نہیں دکھتی؟ یا وہ دیکھنا نہیں چاہتیں – ملک کے قریب پندرہ فیصد مسلم ووٹ تو ان سب کو چاہیے لیکن مسلم قیادت کسی کو منظور نہیں ہے۔
اس میٹنگ میں ۔ٹی ایم سی ، این سی پی ، ایس پی، بی ایس پی، ڈی ایم کے ، شیو سینا ، جے ایم ایم ، سی پی آئی ، سی پی ایم ، این سی ، آر جے ڈی ، اے آئی یو ڈی ایف وغیرہ کے قائدین شریک ہوے۔

کانگریس کی حیثیت
2019 کے لوک سبھا الیکشن پر نظر ڈالیں تو آپ پر یہ عقدہ بخوبی کھل جائے گا کہ کانگریس کی حیثیت کیا ہے باوجود اس کے اس اجلاس میں ملک کے سب سے مشہور مسلم قائد، ہر پلیٹ فارم پر مسلمانوں کی آواز بننے والے چہرے اسد الدین اویسی صدر مجلس اتحاد المسلمین کو نظر انداز کیا گیا۔

کانگریس کو 2019 کے الیکشن میں لوک سبھا کی 542 نشستوں پر ہونے والے الیکشن میں سے صرف 52 پر کامیابی حاصل ہوئی تھی، ان 52 جيتی ہوئی نشستوں میں سے 46 نشستوں پر جو کامیابی ملی تھی وہ بھی مقامی پارٹیوں سے اتحاد کی بنا پر ملی تھی – 15 نشستیں کیرل میں ، 8 تمل ناڈو، 8 پنجاب،3 تلنگانہ، 3 آسام، 2 بنگال، مہاراشٹر، کرناٹک، میگھالیہ، پڈو چری اور انڈمان نکو بار سے ایک ایک سیٹ ہی جیت سکی تھی۔
یعنی کانگریس نے اپنے دم پر سیدھے بی جے پی سے ٹکر لے کر صرف 6 نشستوں پر ہی کامیابی پائی ہے، وہ چھ نشستیں بھی دیکھ لیں – یوپی کی 80 لوک سبھا سیٹوں میں سے صرف ایک وہ بھی آبائی سیٹ، امیٹھی سے سونیا گاندھی جیتی تھیں وہ بھی تب جب سماجوادی پارٹی نے اپنا امیدوار نہیں اتارا تھا – بہار کی 40 لوک سبھا میں سے ایک وہ بھی آر جے ڈی کے ساتھ – مدھیہ پردیش میں ایک، جھارکھنڈ کی چودہ میں سے 1 چھتیس گڑھ سے 2 اس طرح کل تعداد صرف چھ ہوئی، یہ نشستیں سیدھے بی جے پی سے ٹکر لیتے ہوئے کانگریس کو ملی تھیں۔

کانگریس کی حالت ایسی ہے کہ اسے 16 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ایک بھی نشست نہیں ملی۔ آندھرا پردیش ، لکشدیپ ، دہلی ، دمن ، دادرا اور نگر حویلی ، چنڈی گڑھ ، اتراکھنڈ ، تریپورہ ، سکم ، راجستھان ، ناگالینڈ ، منی پور ، ہماچل پردیش ، ہریانہ ، گجرات اور اروناچل میں کانگریس کھاتا بھی نہیں کھول پائی۔
کانگریس سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے دو سو سیٹوں پر کانگریس بی جے پی میں ٹکر ہوتی ہے، کانگریس کو 12 کروڑ ووٹ بھی ملے، لیکن نشستوں کی بات کی جائے تو کل 52 اور اصل میں صرف 6 پر کامیابی ملی ہے ایسے میں کانگریس کا اتحادی ٹولے کا سربراہ بننا بڑا مشکل ہے، کیونکہ کانگریس سے ٹوٹ کر وجود میں آئیں تین کانگریس پارٹیاں بھی اپنے دم پر لوک سبھا کی 49 نشستوں پر کامیاب ہوئی تھیں، جن میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس 22، مہاراشٹر میں شرد پوار کی نیشنل کانگریس پارٹی 5،اور آندھرا میں جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر(YSR) کانگریس کو 22 نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔
ایسے میں کانگریس کا یہ سوچنا کہ مورچے کی ذمے داری راہل گاندھی کو ملے بڑا مشکل ہے، کیونکہ اس سے بہتر لیڈر تو ممتا بنرجی، جگن موہن ریڈی وغیرہ ہیں، کانگریس صرف چھ نشستوں کے دم پر قيادت کا سہرا چاہتی ہے جو اب اس کی حیثیت سے زیادہ ہے – ہاں یہ ضرور ہے کہ کانگریس کے بغیر کوئی مورچا کامیاب نہیں ہوگا، لیکن ہر ہر بات اعدادوشمار کا کھیل کھیلنے والے لیڈر کانگریس کو کتنی اہمیت دیں گے یہ بات بھی دیکھنے لائق ہوگی۔

مسلمان ایک بار پھر حاشیے میں
حالیہ سالوں میں ہم سماجوادی اور کانگریس، سماجوادی، بی ایس پی، کانگریس آر جے ڈی، کانگریس اور لیفٹ کے ساتھ دیگر پارٹیوں کا گٹھبندھن دیکھ چکے ہیں، خاص بات یہ رہی ہے کہ ہر گٹھبندھن سے مسلمانوں کو الگ ہی رکھا گیا ہے سوائے آسام کے، وجہ بھی صاف رہی ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ یہ جائیں گے کہاں؟ اس لیے وہ کہیں بھی اتحاد کو تیار نہیں ہوتے، اس طرح وہ پارٹیاں جن کی باگ ڈور کسی مسلم کے ہاتھ میں ہے ان پارٹیوں کو ٹھکانے لگانے کی خاموش کوشش ساری نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی رہتی ہے اور آج تک وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔
حالیہ 19 جماعتوں کی میٹنگ بھی اسی کا پیش خیمہ ہے جس میں کئی علاقائی اور بہت چھوٹی پارٹی کے اراکین کو تو شرکت کا دعوت نامہ پہنچا لیکن سوائے بدر الدین اجمل کے (جن کو یوپی، اترا کھنڈ بلکہ آسام کے باہر الیکشن نہیں لڑنا) مسلم قیادت کے علم برداروں کو دعوت نہیں ملی۔
مجلس اتحاد المسلمین 2024 کے لوک سبھا الیکشن اور آئندہ ہونے والے تقریباً سبھی ودھان سبھا الیکشن میں حصہ لینے والی ہے اور اس پارٹی سے مسلم کثرت کے ساتھ جڑ رہے ہیں لیکن اسی پارٹی کو نظر انداز کیا گیا ہے – کانگریس ہمیشہ مسلم قیادت کے خلاف رہی ہے اور اسی نے یہ طریقہ اغیار کو بھی سکھا دیا ہے کہ ان کا ووٹ تو لو، لیکن ان کی قیادت کو کھڑا مت ہونے دینا، اگر بی جے پی جيت رہی ہو تو جيت جانے دینا لیکن ان کا ساتھ لے کر انھیں مضبوط نہ کرنا – اب ایسے میں مسلم دانشوران اور علمائے کرام، مشایخین عظام کو ایسی حکمت عملی اپنانا چاہیے جو مسلم قیادت کو سودمند بھی ہو اور اپنا نقصان بھی نہ ہو – مسلمانوں کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ جب تک وہ ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو سبق نہیں سکھائیں گے تب تک یہ ہمارے حقوق نہیں دینے والیں۔

رزرویشن پر سب کا کھیل
رزرویشن کو لیکر پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر جس طرح کی بحث چل رہی ہے اور حکومت OBC کی تیرہ مزید ذاتوں کو رزرویشن دینے کے لیے سارے ہتھکنڈے اپنا رہی ہیں وہیں 1950 میں آرٹیکل 341 لاکر مسلمانوں اور عیسائیوں کا جو رزرویشن روکا گیا اس پر ساری سیکولر پارٹیاں منھ میں دہی جمائے بیٹھی ہیں، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ
اپنے حصے کی لڑائی ہمیں خود لڑنی ہے
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا

جب تک ہم خود اپنی لڑائی نہیں لڑیں گے ہمیں کوئی نہیں پوچھنے والا۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے