از:محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی – رام گڑھ
[رکن:مجلسِ شوریٰ: ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ و ڈائریکٹر:مجلسِ علمائے جھارکھنڈ]
چودھویں صدی کے اوائل میں بیرونی ممالک جاکر دعوت و تبلیغ کے فرائض انجام دینے والی شخصیات میں اولین نام حضرت علامہ عبدالعلیم میرٹھی علیہ الرحمہ کا آتا ہے- دیار غیر میں پہنچ کر آپ نے دین و سنیت کا پرچم بلند کیا، اور اپنے معاصرین بالخصوص اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محقق بریلوی علیہ الرحمہ کے خلفا وفیض یافتگان میں سب سے پہلے آپ نے اس سفر عظیم کی باضابطہ بنیاد رکھی ۔
حضرت علامہ عبدالعلی میرٹھی علیہ الرحمہ کے بعد منظم انداز میں بیرون ممالک میں جاکر، وہاں رہ کر دعوت و تبلیغ کا کام، مذہب اسلام کی نشرو اشاعت کا فریضہ، اور مدارس و مساجد کے قیام کے لیے بےمثال تگ و دو کرنے والی شخصیت وہ ہے، جسے دنیا قائد اہل سنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے نام سے جانتی ہے- اس سلسلے میں؛ میں یہاں پر صرف ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں – حضرت علامہ فروغ القادری، ورلڈ اسلامک مشن، لندن، جو اس وقت انگلینڈ ہی میں مقیم ہیں؛ آپ فرماتے ہیں:
آج برطانیہ کے سینے پر سنیوں کی تقریباً آٹھ سو مسجدیں کھڑی ہیں آپ شاید یقین نہ کریں ان کی بقا میں علامہ ارشد القادری کا خون جگر شامل ہے – [جام نور کا رئیس القلم نمبر :١٠٧]
حضرت علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ ہر فرد بشر کو اپنی زندگی میں اوج ثریا تک پہنچانے کے متمنی تھے۔ اس کے لیے آپ نے ملک و بیرون ملک کا دورہ کر کے ہرفرد کو ایک پلیٹ فارم میں جمع ہونے کی دعوت دی اور اعلٰی پیمانے پر تحریک و تنظیم کی بنارکھی۔ ملک وبیرون ممالک میں قائم کردہ مساجد و مدارس اور تنظیم ان کی زندگی کے عظیم کار نامے ہیں جسے رہتی د نیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بالخصوص برطانیہ میں "ورلڈ اسلامک مشن” ہالینڈ میں "جامعہ مدینۃ الاسلام” بریڈ فورڈ میں "اسلام کالج” جنوبی امریکہ میں "انصاری دارالیتمی” اور "انصاری اسکول” سورینام (امریکہ ) میں "دارالعلوم علیمیہ” اور کراچی میں "دعوت اسلامی ‘‘ کی داغ بیل ڈالی-
قائد اہل سنت کے یہ ایسے عظیم کارنا مے ہیں جنھیں دیکھ کر اپنے تو اپنے بیگانے بھی حیران و ششدر رہ گئے۔ اب ذیل میں مذکورہ تحریکوں کا ایک مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) ورلڈ اسلامک مشن لندن: 1972ء میں جب علامہ اپنے دوسرے سفر حج پر تھے تو انھوں نے مکہ معظمہ میں مختلف ملکوں سے آئے علمائے اہل سنت اور ممتاز مذہبی پیشواؤں کے ساتھ مل کر ایک میٹنگ رکھی اور باہمی مشورے سے عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کا کام کرنے کے لیے ایک تنظیم "ورلڈ اسلامک مشن” کی بنیاد رکھی اور 1973ء میں برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں اس کا دفتر قائم ہوا۔ (آج یہ ادارہ انگلینڈ میں حضرت علامہ قمر الزماں اعظمی مصباحی کی صدارت میں بڑی شان وشوکت کے ساتھ چل رہا ہے.)
(2) اسلامک مشنری کالج کا قیام:
ورلڈ اسلامک مشن کو سطح زمین پر اتارنے کے لیے زمین کی تلاش شروع ہوئی اتفاق سے ایک چرچ جو بک ر ہاتھ لیکن قیمتی ہونے کی وجہ سے شرکا حضرات خریدنے کے سلسلے میں شش وپنج میں تھے، آپ کو پتہ لگا تو خدا کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے چرچ کو خریدنے کے لیے تیار ہوگئے۔ رقم کی فراہمی کا معاملہ آسان نہ تھا، ایک تو وہ اپنے وطن (ہندوستان) سے دور تھے اس لیے آپ نےوہاں کے علما کو تیار کیا اور انگلینڈ کے شہروں کا دورہ کیا، جس میں عوام کو اسلام کے استحکام اور دینی ادارے کے قیام کے لیے ابھارا اور انھیں یہ احساس دلایا کہ یہ کتنا اہم کام ہے۔ اگرچہ علامہ کو اس کے لیے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر بالآخر آپ کے ہمت و ارادے کی جیت ہوئی اور اس چرچ کو خرید کر "اسلامک مشنری کالج” کے نام سے ایک دینی ادارے کی بنیاد رکھی، اور اس سے متصل ایک مسجد کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔
حضرت مولانا فروع القادری جو ورلڈ اسلامک مشن کے اہم رکن میں سے ہیں اور فی الوقت انگلینڈ ہی میں مقیم ہیں؛ آپ فرماتے ہیں : آج برطانیہ کے سینے پر سنیوں کی تقریبا آٹھ سو مسجد یں کھڑی ہیں آپ شاید یقین نہ کریں ان کی بقامیں موصوف ( علامہ ارشدالقادری ) کا خون جگر شامل ہے-
[جام نور کام رئيس القلم نمبر، ص:107]
( 3) جامعہ مد ینۃ الاسلام: قائد اہل سنت نے جب ہالینڈ کا دورہ کیا تو انھوں نے اپنی عادت کے مطابق وہاں کے حالات اور مسلمانوں کی خبر لی چناں چہ انھیں یہ سن کر بڑا افسوس ہوا کہ سوری نام (امریکہ ) سے منتقل ہونے والے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور دینی معمولات میں بڑی تیزی سے تبدیلی ہوتی جارہی ہے ۔ یہ سننے کے بعد علاقے کے ذی اثر لوگوں کو جمع کیا اور جامعہ مدینۃ الاسلام کی بنارکھی۔ ابتداء یہ ادارہ کرائے کے ایک مکان پر چلتارہا جس میں حفظ وقرأت کی تعلیم ہوتی رہی ۔ جب کچھ بچوں نے حفظ قرآن مکمل کر لیا تو دستار حفظ کے لیے پروگرام رکھا گیا۔ چوں کہ آپ (علامہ ارشدالقادری ) اس ادارے کے بانی اور چئیر مین بھی تھے اس لیے آپ کو خصوصی طور پر (ہالینڈ) مدعو کیا گیا۔ پروگرام اتنا کامیاب رہا کہ ہالینڈ میں اس کاچرچا زوروں پر تھا، کئ ہفتے تک تو میڈیا والوں نے اس کی تشہیر کی ۔
اس کامیابی کے بعد جامعہ کے اراکان اتنے خوش ہوئے کہ انھوں نے حفظ و قرأت کے ساتھ عالم و فاضل کی پڑھائی کےانتظام وانصرام میں لگ گئے-
اس میں ان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جن لوگوں کی مادری زبان ڈچ، انگلش، جرمن اور فرنچ ہے، انھیں کی مادری زبان میں اسلام کا پیغام پہنچا سکے۔ جامعہ مدینۃ الاسلام کی بنیاد کے لیے جب زمین کی خریداری کے لیے نکلے تو فضل مولیٰ سے ایک تین منزلہ عیسائی کالج کی شاندار عمارت مل گئی جو تعلیمی منصوبے پر پورے طور سے اتررہی تھی۔ فضل خداوندی دیکھیئے کہ اتنی کم قیمت میں وہ شاندار عمارت مل رہی تھی جتنے میں صرف اس کی زمین خریدی جا سکتی تھی، لوگ اس پر حیران تھے، مگر پھر بھی یہ رقم اکٹھا کرنے کے لیے دو مہینے کی مہلت لینی پڑی جب وقت مقررہ پر رقم اکٹھا ہونے کی صورت نظر نہ آئی تو علامہ شاہ احمد نورانی علامہ ارشدالقادری سے کہنے لگے !
احباب جامعہ کے حوالے سے بہت فکر مند ہیں کہ آپ واپس ہندوستان تشریف لے جائیں گے اور بقایا ر قم کی فراہمی ان کے سر پڑ جائے۔ یہ صورت حال ان کی استطاعت سے باہر ہو جائے گی۔ اس لیے جامعہ کی عمارت خریدنے سے پہلے ایک بار غور کر لیں۔ یہ سن کر علامہ صاحب نے جواب دیا کہ میں انھیں چھوڑ کر کہاں جا رہا ہوں کہ بقایا رقم کی فراہمی ان کے سر پڑے گی۔ جب تک جامعہ کی بقایا رقم کی ادائیگی نہیں ہو جاتی میں یہیں رہوں گا۔
چند دنوں کے بعد ایک مجلس منعقد کر کے چندے کی اپیل ہوئی ، پروگرام کے اختتام پر علامہ کی ایسی رقت انگیز دعا ہو ئی جس میں وہ پھوٹ پھوٹ کر رورہے تھے۔ اسی محفل میں ایک امریکن نوجوان اپنے دوست کے ساتھ موجود تھا، اس نوجوان پر علامہ صاحب کی دعا کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے مطلوبہ رقم اپنے والد سے دلوا کر علامہ کی بے چینی دور کی۔
(4) "سرینام پولٹیکل کونسل” (سورینام):
ہالینڈ جانے سے قبل علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ سورینام پہنچے اور قیام کے دوران یہاں کے مسلمانوں کی سیاسی حصے داری کے متعلق معلومات حاصل کی جب انھیں پتہ چلا کہ یہاں کے مسلمان مختلف پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں، تو آپ نے ریڈیو کے ذریعے اپنی آواز مسلمانوں تک پہنچائی۔ اس تقریر کا اتنا اثر ہوا کہ دوسرے ہی دن سارے سیاسی اور مذہبی مسلم عمائدین کی ایک اہم میٹنگ آپ کے قیام گاہ میں ہوئی اور آپ نے "سر ینام پولٹیکل کونسل” کے نام سے ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد ڈال دی ۔
(5) "دار العلوم علیمیہ” (سورینام):
اسی سفر میں آپ نے اپنی عادت کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے لیے "دار العلوم علیمیہ” (سورینام) کی بھی بنارکھی۔
(6) دعوت اسلامی : علامہ ارشدالقادری کے ذہن میں ایک ایسی تحریک بھی تھی جو جماعت اسلامی کا دعوت و تبلیغ کے ذریعے جواب دے سکے اور دعوت وتبلیغ کے لیے خاص طور پر ایسے افراد ہوں جو اس کام کے لیے پورے طور پر وقف ہوں ۔ چناں چہ اس تحریک کے لیے آپ نے موزوں جگہ پاکستان کو پایا۔ 1982ء میں پاکستان پہنچے اور وہاں کے ممتاز و معروف علما کے ساتھ مل کر اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا خاکہ پیش کیا۔ علمائے پاکستان نے اس تحریک کی حمایت کی اور اس طرح دعوت اسلامی کی بنا ہوئی ۔ آپ ہی نے حضرت مولانا الیاس عطار قادری کو اس کا امیر منتخب کیا-
(7) بیرون ممالک کانفرنسوں میں بحیثیت مندوب شرکت:
آپ اپنے ملک کےساتھ ساتھ بیرون ممالک میں بھی اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ ذیل میں ان بین الاقوامی کانفرنسوں کی فہرست ملاحظہ فرمائیں جن میں آپ نے شرکت کی ہے۔
(1) کلچرل کانفرنس، (ایران)
(2) اسلامی عالمی کانفرنس، (لیبیا)
(3) حجاز کا نفرنس، (انگلینڈ)
(4)امام احمد رضا کا نفرنس، (پاکستان)
(5) مولانا عبدالعلیم کا نفرنس، (ہالینڈ )
(6) عالمی اسلامی کانفرنس،( عراق )
(7) عالمی میلاد کانفرنس،( پاکستان)
[نوٹ:اس مضمون کولکھنےمیں رئیس القلم نمبر ( جام نور)، عینی مشاہدات ، دعوت اسلامی اور علامہ ارشد القادری. از:ڈاکٹر غلام زقانی. سے مدد لی گئی ہے]