ازقلم: خلیل فیضانی
عہد موجود میں ہماری اخلاقی حالتیں کافی ناگفتہ بہ ہوچکی ہیں –
چھوٹی چھوٹی باتوں پر بپھرنا بھی کافی زور پکڑ رہاہے –
سنجیدگی و عاجزی تو گویا کمزوری و بزدلی کا سمبل بن چکی ہیں –
ایسے میں ہمیں اخلاقیات کے تٔیں کافی حساس ہونے کی ضرورت ہے –
الحمد للہ!
ہماری جماعت کے متعدد علماء کرام باوصف اپنی اعلی صلاحیتوں کے نہایت عاجزی کے ساتھ پیش آتے ہیں-
نہ ان کے انداز سے رعونت جھلکتی ہے..
اور نہ ہی وہ کسی کے ساتھ نخوت سے پیش آتے ہیں-
بلکہ ہر کسی سے شفقت بھرے انداز میں پیش آتے ہیں..
لوگوں کے درد کو سمجھتے ہیں…قوم کے بھلے کے لئے کوشاں رہتے ہیں….
یہی تو وہ صفات ہیں جو ایک خاکی کو نوری سے افضل بنادیتی ہیں-
لیکن یہ کام ہیں بڑے جگرگردے والوں کے!
باتیں کرنا آسانی ہوتی ہیں-
اصل امتحان تو عملی میدان میں ہوتا ہے!
جملہ علماء کرام سے ہماری عقیدتیں وابستہ ہیں
الحمد للہ …سب کا اکرام بجا لاتے ہیں …
لاریب.. اسی اکرام میں ہماری سرخروئی کا راز پنہاں ہے…
مگر آج جن عالم دین کےتعلق سے چند باتیں سطح ذہن پر ابھریں…اور پھر سپرد بزم احباب کیں . وہ حضرت مولانا مفتی خالد ایوب صاحب قبلہ مصباحی ہیں….
آپ ایک با اخلاق انسان ہیں….
سنجیدہ مزاجی و عجز وانکساری آپ کی قابل ذکر صفات میں سے ہیں…..قوم کا درد پالتے ہیں…..
راقم نے آپ کی ذرہ نوازی کے چند قصے اپنے احباب سے سماعت کئے…
کچھ وہ اور کچھ میرے اکابر اساتذہ کرام کے آپ تٔیں توصیفی کلمات ارقام کرنے کی سعی کی ہے-
مقصد تحریر یہ رہا کہ حالات پڑھ/سن کر ہمیں بھی بھولے ہوۓ مذکورہ اخلاقی اسباق یاد کرنے کی ایک تحریک ملے….اور قبلہ مفتی صاحب کی زندگی کے یہ اخلاقی گوشے بھی اجاگر ہوں…..
(الف) استاذ گرامی مصلح قوم و ملت حضرت مولانا حافظ سعید صاحب قبلہ اشرفی (بانی و مہتمم دارالعلوم فیضان اشرف باسنی )
کے وہ جملے آج بھی مجھےیاد ہیں جو انہوں نے برسر اسٹیج کثیر علماء کرام کی موجودگی میں فرماۓ تھے کہ: ,,مفتی خالد ایوب صاحب قبلہ مصباحی ہیرا ہیں – ان کی قدرکرو-ان کو پہچانو اور ان سے خوب فائدہ اٹھاؤ,,-
(ب)اسی طرح میرے ایک اور استاذ حضرت مولانا خورشید صاحب قبلہ مصباحی سے کچھ دن پہلے مادر علمی میں ہی ملاقات ہوئی-
آپ مفتی صاحب قبلہ سے کافی زیادہ متاثر تھے
فرمانے لگے:,,وہ بندہ دوسرے کے درد کو سمجھتا ہے,,-
علم کے پہاڑ ہیں مگر ہم جیسوں سے بھی بڑی عاجزی سے پیش آتے ہیں… اور پھر اسی عاجزی پر تبصرہ فرماتے ہوۓ فرمایا:
وہ کتنی عاجزی کرتے ہیں!
یعنی بہت عاجزی کرتے ہیں ..
ہر چھوٹے/ بڑے سے تواضع کے ساتھ ملتے ہیں, سنجیدگی تو ان میں بہت زیادہ ہے…
ان کے علاوہ بھی کافی سارے توصیفی کلمات کہے
من و عن یاد نہیں رہے ورنہ ان کو بھی رقم کرتا
(ج) باسنی میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو
دعوت اسلامی کے پلیٹ فارم سے تدریسی خدمات پر مامور تھے-
دوران گفتگو میں نے ان سے کسی بات کے ضمن میں قبلہ مفتی صاحب قبلہ کا تذکرہ کیا تو وہ بے ساختہ بولے .
:مفتی خالد ایوب صاحب قبلہ!یعنی بڑے تعجب کے ساتھ..
وہ تو بڑی کمال کی شخصیت ہیں-
پھر بتایا کہ میرے ایک دوست ان کے شاگرد ہیں-
وہ بتارہے تھے کہ جب کبھی میں وقت بے وقت مفتی صاحب قبلہ کے پاس کتاب لے کر پڑھنے کو گیا تو آپ نے منع نہیں کیا بلکہ بڑے پیار سے سبق سمجھا کر ہی واپس بھیجا –
پھر بتانے لگے کہ:ان کے پاس کوئی بھی کسی کام کے لئے جاتا ہے تو منع نہیں کرتے –
بالخصوص پڑھائی/ لکھائی کے کاموں میں-
(د) مولانا نازش مدنی جو راقم کے قریبی دوست ہیں اور اچھے قلمکار ہیں-
بالخصوص شخصیات پر خامہ فرسائی میں ان کا اپنا ایک انداز ہے –
بتا رہے تھے کہ دارالعلوم فیضان اشرف باسنی کے جلسے میں آپ سے ملاقات ہوئی-
دوران گفتگو میں نے مفتی صاحب قبلہ سے عرض کی کہ :,,حضرت! میں آپ کو اصلاح کے لئے کچھ مضامین بھیجوں گا!
آپ ان کی اصلاح فرمائیں گے؟
تو آپ نے روایتی انداز میں قلت وقت یا کثرت مشاغل کا عذر بالکل نہیں کیا بلکہ بغیر تامل کے فرمایا ,,آپ مضمون بھیجئے-
میں آپ کا مضمون چیک کروں گا-
اور پھر ایک شیرانی مولانا سے جو وہاں پاس ہی کھڑے تھے-
کہا کہ مولانا نازش کو کبھی شیرانی آباد مہمان بنا کر لاؤ-
حالاں کہ غالبا ان کی یہ پہلی ملاقات تھی, اور اس سے پہلے صرف فون پر ہی,
علیک سلیک سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوا تھا –
آج قلت وقت کا عذر ہر دوسرا بندہ کرتا نظر آتا ہے- لیکن آپ نے اپنی ڈھیر ساری مصروفیات کے باوجود بھی منع نہیں کیا, اور اصلاح مضامین کی ہامی بھرلی-
یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات ہے –
قارئین! یہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن کو ہم ذرہ بھر اہمیت نہیں دیتے-
زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہیں –
اسی طرح کے مثبت رویے لوگوں کے دلوں میں ازیاد حب کا سبب بنتے ہیں-
اور ایک انسان کو لوگوں کے دلوں میں بٹھانے کا خوب طور سے کردار اد کرتے ہیں –