تحریر: مفتی منظور ضیائی
روحِ رواں عالمی صوفی کارواں، ہندستان
تعلیم کی اہمیت ازل سے ابد تک رہے گی خواہ وہ مذہبی نوعیت کی یا دنیاوی نوعیت کی ہو, اس نے ہمیشہ معاشرے کی فلاح و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اسی تعلیم کی بدولت ہی معاشرے سے جہالت کا خاتمہ ممکن ہے یہی وجہ ہے کہ تعلیم کو ہمیشہ سے اہم مقام حاصل ہے، یہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے۔ یہ انسان کا بنیادی حق ہے جو کوئی اسے نہیں چھین سکتا ہے گویا تعلیم زندگی ہے ،اور جہالت موت ہے ،تعلیم سے زندگی سنورتی ہے اور جہالت سے امور بگڑتے ہیں ، جہاں تعلیم ہے وہاں روشنی ہے ،اور جہاں جہالت ہے وہ ایک اندھیرنگری ہے ،تعلیم سے انقلاب آتا ہے ،جبکہ جہالت سے بزدلی پیدا ہوتی ہے،جس قوم نے تعلیم سے اپنا رشتہ جوڑا تو اس کی ترقی ہوئی اور سماج میں اس کا مقام بلند ہوا ،اور جب تعلیم سے کنارہ کشی ہوئی ،وہ آسمان کی بلندی سے تحت الثری تک پہونچ گئی اور جس قوم نے تعلیم کے مواقع سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے اسی لئےہر دور میں یکساں طور پر تعلیم کو بنیادی سرچشمہ قراردیا گیا ہے یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے،آج کے اس پر آشوب اور تیز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت کافی بڑھ گئی ہے، آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے، ایٹمی ترقی کا دور ہے، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے اس لیے اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے لیکن صد افسوس یہ ہے کہ نشان جنت وادی کشمیر میں نامساعد اور غیر یقینی صورتحال کے باعث شعبہ تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے یہاں کے طلبا کا تعلیمی مستقبل تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور تعلیم ثانوی درجے کا بنا دیا گیا ہے اور یہاں تعلیم ادارے شر پسند عناصر کے نشانہ پر ہیں۔یہاں کشمیری دشمن طاقتیں کشمیری لوگوں کو تعلیم کی طرف سے بدگمان کرکے ان کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ یہاں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو اپنی سرداری ،جاگیرداری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کی وجہ سے اپنے اثر و رُسوخ والے علاقوں میں بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ بچوں کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، کیونکہ وہ کم اجرت پر ان بچوں سے کام کروانا چاہتے ہیں یا اپنے مقاصد و اہداف کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ان سیاسی جماعتوں کے بچے ملک اور بیرون ملک کی اعلیٰ جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں! یہی وجہ ہے دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہروں میں بھی شرح خواندگی کم ہے۔ جسکی وجہ سے اکثر بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں اوران کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے اور نوجوان طبقہ تعلیم کی ریس میں پچھے رہ جاتا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ یہاں کے سیاستداں کشمیر میں تعلیم کے فروغ اور اس کے پھیلاٶ کے خلاف ہیں۔ ان کے علاوہ سرکاری حکام بھی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے یہ جانتے ہیں کہ تعلیم کی وجہ سے عوام میں شعور پیدا ہوگا اور اس طرح عوام کو سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکای حکام کا اصل چہرہ نظر آجائے گا اور یہ بھی افسوسناک پہلو ہے کہ وادی میں تعلیمی اور سماجی پسماندگی کے نتیجے میں نوجوان طبقہ منشیات کا عادی ہوتا جا رہا ہے اور ان میں غیر اخلاقی سرگرمیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں جو کشمیری معاشرے کے لیے تشویشناک اور خطرناک ہے۔مرکزی حکومت یہاں کےطلباء کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے اور تعلیمی حالات کو سیاست کی نظر سے بچاتے ہوئے اور یہاں کے طلبہ کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے تعلیمی شعبہ کو جلد از جلد بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے اور مرکز نے کشمیر میں سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کیلئے ایک کمیشن بھی تشکیل دیا ہے، یہ کمیشن کشمیر میں سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ طبقات، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل سے متعلق اُمور کا جائزہ لے گا یہ کمیشن کشمیر میں کسی بھی طبقے کو سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ قرار دینے کیلئے پیمانہ مرتب کرے گا اور تعلیمی معیار میں بہتری سمیت متعدد اہداف کو عملی جامہ پہنائے گا اور کشمیر میں خواندگی کی شرح کو سو فیصد کرنا اور سکول نہ جانے والے بچوں کو اسکول میں دوبارہ داخل کر کے ان کا تعلیم سے ٹوٹا رشتہ بحال کرنے کے علاوہ معیار تعلیم میں بہتری لانا مرکز کے اہداف میں شامل ہے جسکو حاصل کرنے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے
یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت کشمیر میں اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کر رہی ہے کیونکہ تعلیم کے بغیر کشمیر میں سماجی اور اقتصادی ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے اور کشمیر میں تعلیم کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے، نئی نسل کو دی جانے والی تعلیم کو جاب مارکیٹ کیلئے دلکش بنانے اور تعلیمی نصاب اور طریقہ تعلیم کو دنیا میں ابھرنے والے نئے رجحانات کے مطابق ترتیب دیئے ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے بھی کوشاں ہےاور کشمیری نوجوانوں میں سیاسی، نظریاتی، اخلاقی اور نفسیاتی معیار کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے بھی کوشش جاری ہے کیونکہ یہ کشمیری معاشرتی فطرت کو برقرار رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا، ان کی صلاحیت میں صحیح سیاسی اور اخلاقی سمت کا یقین پیدا کرے گا جہاں ایک طرف مرکزی حکومت کشمیر میں تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہے وہیں دوسری طرف کشمیری طلبا کے والدین، اساتذہ اور عوام کے اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دیں اور ان طلباء کو پروفیشنل تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی ،سماجی ذمہ داریاں اور دیگر حقوق کے بارے میں بھی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہیں اور ان پر شہری تعلیمی نظام میں صوفیوں کی تعلیمات اور نصاب میں ان کی سوانح عمری شامل ہونا چاہئے اور ایسا ماحول پیدا کریں کہ کشمیری طلباء مکمل دلجمعی اور لگن کے ساتھ تعلیم حاصل کریں اور وقت اور تعلیم کا صحیح استعمال کریں اور اگر ایسا ممکن ہوا تو وہ دن دور نہیں کہ کشمیری لوگوں کا شمار ان اقوام میں ہوگا جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ بھی ہوں گے اس لیے ضرورت ہے کہ یہ نعرہ عام کریں کہ جب پڑھے گا کشمیر تو بڑھے گا کشمیر