عارفانہ کلام
از : عبدالمبین فیضی
ہے مرے دل پہ تری یاد کا پہرہ مضبوط
اس لیے تو ہے مرے عشق کا قبلہ مضبوط
آسماں پر مہ و خورشید یوں نغمہ زن ہیں
روئے جاناں کی تجلی کا ہے ہالہ مضبوط
شہر جاناں میں تو خود پر نہیں ہوگا قادر
چاہے جتنا بھی تو کر اپنا ارادہ مضبوط
تیرا دیوانہ ہوں دیوانہ حقیقت ہے یہی
نام کا تیرے مرے دل پہ ہے کتبہ مضبوط
ہے وہاں جلوہ فگن نعمت مولیٰ کا قسیم
"ہم فقیروں کامدینے سے ہےرشتہ مضبوط”
وہ بَلندی کا ہوا کُوہِ ہِمَالَہ بیشک
جس نےبھی تم سےرکھا اپنا علاقہ مضبوط
آسماں کے مہ ِ تاباں نے بھی سینہ چیرا
تیری انگلی کا ہے کس درجہ اشارہ مضبوط
تو جسے ایک نظر دیکھے وہ تیرا ہوجائے
اس قدر دل پہ ترا ہوتا ہے قبضہ مضبوط
تیرے عشاق کے زمرے میں جب آیا فیضی
واقعی ہوگیا اس کا بھی نصیبہ مضبوط