خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاکستان
ناداں کو اپنا دوست بنانا فضول ہے
ہر جائیوں سے دِل لگانا فضول ہے
جو سیدھی سادی بات سمجھ کر نہ دے سکے
بے جا پھر اس سے سر کھپانا فضول ہے
کوئی نہیں بجھاتا لگی آگ دل میں جو
پھر دل میں ایسی آگ لگانا فضول ہے
جس کی سرشت میں ہے وفا اک فضول شے
اس سے وفا کی رسم نبھانا فضول ہے
گر ہو یقیں نہ پوری کبھی ہو سکیں گی جو
ان خواہشوں کو دِل میں بسانا فضول ہے
ہو جس کو اپنی بات نہ عہد وفا کا پاس
اپنا پھر اس کو دوست بنانا فضول ہے
کیں کوششیں تو لاکھ منانے کی ہم نے پر
روٹھے ہیں ایسے وہ کہ منانا فضول ہے
کوشش جو کر رہے ہو اسے بھولنے کی تم
پھر اشک بھی فیضان بہانا فضول ہے