تحریر: اشکررضا لطفی مصباحی
مستشرقین یورپ نے ، پیغمبر اسلام کی پیغمبرانہ عظمت پر شب خون مارتے ہوئے ایک شوشہ یہ بھی چھوڑا کہ ، مسلمانوں کے نزدیک ، پیغمبر کی حیثیت صرف ایک پیغام رساں کی تھی ، اس سے زیادہ کچھ نہ تھی ، اصل حقیقت اور حیثیت پیغام کی تھی۔
(آج جو بعض کلمہ گو ( دیابنہ، وہابیہ ) نے یہ ذہن بنارکھاہے کہ محمد رسول اللہ کی ذات کو نہیں ،بلکہ محض ان کی تعلیمات کو دیکھنے کی ضرورت ہے ، یہ سوچ بھی ، مستشرقین کی اسی سوچ کی پیداوار ہے )
کس قدر تاریخ سے انحراف اور بغاوت سے پُر ہے یہ دعویٰ ؟ ہر وہ شخص جسے تاریخ سے تھوڑا بھی شغف ہو ، اس پر ان کے اس دعویٰ کا بطلان بالکل واضح ہوگا.
ہوتا یہ ہے کہ پہلے یہ کوئی دعویٰ کرتے ہیں، ہزارتتبع کے باوجود دلیل نہ ملنے پر ، اپنے مزعومہ اور دعویٰ کے اثبات کے لیے ، اپنی ذہنی اختراع کو تاریخ کا نام دے دیتے ہیں ، اور کبھی دعویِ محض سے کام چلادیتے ہیں ۔
حالاں کہ تاریخ ، ان کے اس دعویٰ کو بالکل مسترد کرتی ہوئی نظر آتی ہے ، اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ، صحابہ کے نزدیک ، پیغام کی حقیقت کا انحصار ہی پیغمبر کی ذات پر تھا ، پیغمبر جسے قرآن قرار دیں وہ قرآن ہے ، اور جسے تفسیر اور حدیث فرمادیں ، وہ تفسیر اور حدیث ٹھہرے ۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے ، اور انہیں ان کی متعصبانہ و معاندانہ فکر نے اس راہ پر لاکھڑا کیا کہ وہ پیغام کے پیغام ہونے ، اور منزل من اللہ ہونے کا اقرار تو کرتے ہیں ، اور وہ بھی اسی پیغمبر کی زبانی ، جن کی حیثیت کو کم کرناچاہتے ہیں ، لیکن پیغمبر کی عظمت کو دنیاکی نگاہ میں کالعدم قرار دے رہے ہیں ۔
جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ صحابہ وہ ہیں جو، نبی کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی جان تک قربان کرنے سے گریز نہیں کرتے، حکم دیں تو پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیں ، ابو جہل اور حضرت ابوبکر کے مابین ، معراج کے تعلق سے جو گفتگو ہوئی اس سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ ، پیغمبر کی حیثیت ان کی نظروں میں بہت اونچی تھی ۔
تاریخ اسلام میں ایسے واقعات بہت ہیں۔
اخیر میں ایک واقعہ لکھ کر اپنی بات ختم کرتاہوں ۔
عروہ بن مسعود ثقفی ، جوکفار کے نزدیک مکہ میں سب سے عقلمند اور ہوش مند آدمی سمجھے جاتے تھے ، جنہوں نے دنیا دیکھی تھی ، انہیں ، کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا تاکہ ، پتہ لگاسکے کہ آخر وہ کون سی طاقت سے جس کی بنیاد پر محمد رسول اللہ، قیصر وکسری کے سر نگوں ہونے کی بات کررہے ہیں ؟
کوئی بڑا لشکر ہے ان کے ساتھ ؟ مادی اسباب ہیں ؟ کیاہے جس کی بنیاد پر اتنا بڑا دعوی کررہے ہیں ؟ جب کہ ان کے ساتھیوں میں اکثر غربا و فقرا شامل ہیں ، لیکن ان کی بات بھی صد فی صد درست ہوتی ہے، اسی لیے کچھ نہ کچھ تو ہے ۔
عروہ بن مسعود نے بارگاہ رسالت سے واپسی پر اپنی قوم کو یہ تأثر دیا جسے تاریخ نے اپنےماتھے کا جھومر بنارکھاہے ۔
اس کا ترجمہ پیش ہے 👇
اے میری قوم !خدا کی قسم میں بادشاہوں کے دربار میں گیاہوں ۔ میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی کے پاس بھی گیاہوں ۔خدا کی قسم میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا ، جس کے ساتھی اس کا اس طرح احترام کرتے ہوں جس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کےصحابہ ان کااحترام کرتے ہیں ۔جب وہ (نبی) تھوکتے ہیں تو ان کا تھوک ان کے صحابہ میں سے کسی کی ہتھیلی پر گرتا ہے۔ اور وہ(صحابہ) اسے (تھوک کو) اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتاہے۔ جب وہ حکم دیتے ہیں تو تعمیل ارشاد کی طرف لپکتے ہیں۔ جب وہ وضو کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتاہے جیسے ان کے صحابہ ان کے وضو کے پانی کو حاصل کرنے کےلیے آپس میں لڑ پڑیں گے ۔ جب وہ بات کرتے ہیں تو وہ اپنی آوازوں کو دھیماکرلیتے ہیں ۔ اور ا ن کے احترام کی وجہ سے ان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھتے ( ضیاء النبی ج۷ ص۲۳۲، بحوالہ محمد رسول اللہ )
اب ایک مستشرق خود بتائے کہ صحابہ کی تعظیم کا کیاحال تھا اور کیا کیفیت تھی ؟؟؟؟؟؟؟