تحریر: منظور ضیائی چیئرمین علم و ہنر فاؤنڈیشن ممبئی
کشمیر خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک ہے۔یہ زیادہ تر سرسبز وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہے اور قدرت نے اس خطے کو ہر قسم کے نظارے بخشے ہیں یہ اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی وجہ سے جانا جاتا ہے انہیں خوبصورت مناظر ،دلکش اور پر جاذب مقامات کی وجہ سے اس کو نشانِ جنت اور برِ صغیر کا سوئزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے،اسی لیے لوگ سیر و تفریح کے لیے بڑی تعداد میں اس خطے کا رُخ کرتے ہیں۔موصولہ اطلاعات کے مطابق پہلے ہر سال دس لاکھ سے زائد سیاح اس خطے کا رخ کرتے تھے اور اب گزشتہ گیارہ ماہ سے بیس ہزار سے بھی کم سیاح کشمیر آئے ہیں! اس وجہ سے وادی میں سیاحت کے شعبے سے وابسطہ افراد مایوسی سے نڈھال ہیں اور یورپین ممالک کے علاوہ برطانیہ، امریکا، اسرائیل، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، ویتنام، سنگاپور، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ملکوں سے بھی سیاح کشمیر کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں کا رخ کرتے تھے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں، ہوٹلوں کے کمرے خالی پڑے ہیں، مشہور ڈل جھیل میں کشتیوں میں سیاح نہیں ہیں اور گلمرگ اور پہلگام کی وادیوں میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔پہلے جب وادی میں سیاحت کا شعبہ اپنے عروج پر ہوتا ہے تو اکثر ہوٹلوں کے کمرے خالی نہیں رہتےتھے لیکن آج سارے ہوٹل ویران پڑے ہوئے ہیں اور سیاحتی مقامات پر سناٹا چھایا ہے، زبرون پہاڑی سلسلہ، ڈل جھیل کے پانی پر کھڑے شکارے، رہاؤس بوٹ اور دیگر منفرد اور دلچسپ نظارے تو وہیں ہیں پر ان سے لطف اندوز والے نفوس ہی کافور ہیں، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ روئے زمین پر جنت کہلانے والی وادی کی تمام سیاحتی مقامات سنسان منظر پیش کررہی ہیں۔ان سیاحتی مقامات پر واقع سبھی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤسز بند یا خالی ہیں۔ وہ ہزاروں افراد جن کی روزی روٹی سیاحتی شعبے پر منحصر ہے ان کو شدید مالی دشواریاں درپیش ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد قرض لے کر زندگی گزر بسر کرنے لگے ہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ کشمیر کے محکمہ سیاحت کے مطابق وادی کی آبادی کا تقریباً تیس فی صد حصہ سیاحت کے شعبے پر بالواسطہ یا بلا واسطہ اپنے روزگار کے لیے منحصر ہے۔ ان میں ہوٹل مالکان، ڈل جھیل میں ہاؤس بوٹ مالکان، شکارا والے، گلمرگ، پہلگام، سنمرگ اور یوسمرگ کے خوبصورت سبزہ زاروں میں گھوڑے والے، ٹیکسی والے، اور دودھ پتھری، کوکرناگ، ویری ناگ، شالیمار اور نشاط باغات اور دیگر صحت افزا مقامات پر مختلف شعبہء جات سے وابسطہ افراد سیاحت کے ذریعے ہی کماتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاحت کے شعبے کو اکثر کشمیری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے جیسے کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور قدرے معمول کے حالات میں وہ اپنی گاڑی میں سیاحوں کو مختلف صحت افزاء مقامات پر لے جاتے تھے اور اس سے حاصل شدہ کمائی سے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتے تھے لیکن پچھلے دس ماہ سے وہ بیکار پڑے ہیں۔نامساعد حالات کے باعث اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اور اپنی فیملی کے باقی اخراجات اٹھانا ان کے لیے بہت مشکل بن گیا ہے اور سیاحوں کے نہ آنے کی وجہ سے کشمیر کی سیاحتی صنعت ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے اور دھیرے دھیرے کشمیری معیشت تنزلی کا شکار ہے اور حکومتی مدد اور مالی پیکیج کی عدم موجودگی میں معیشت کا پٹری پر لوٹنا ناممکن ہے اس لیے مرکزی حکومت نے آنے والے دنوں میں مزید بہت سارے پروگراموں کے ساتھ ساتھ شعبہ سیاحت کو فروغ دینے کے لئے تیار ہے چونکہ شعبہ سیاحت کورونا وائرس( کوئیڈ-۱۹) کی وجہ سے متاثر ہوالیکن اب مرکز نے سیاحت کے شعبے کے لئے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) متعارف کرایا ہےاس سے یہاں آنے والے سیاحوں کو اپنے دورے کے دوران وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں مدد ملے گی لیکن اب دوبارہ یہ شعبہ مرحلے کے لحاظ سے کھل رہا ہے جیسا کہ محکمہ سیاحت نے کہا کہ کشمیر کے تمام سیاحتی مقامات شرائط کے ساتھ کھلے ہیں، اور جو لوگ تشریف لاتے ہیں وہ ایس او پیز کی پیروی کریں اور کشمیر میں شعبہ سیاحت کو فروغ دینے اور مستحکم بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دیتے ہوئےایکطرف سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز یعنی ڈل جھیل تو دوسری طرف زبرون پہاڑی سلسلہ اور اس کے دامن میں دہائیوں پرانے بلند وبالا ہوٹلوں کو بھی ترقیاتی منصوبوں میں داخل کیا گیا ہے
کیونکہ یہ علاقہ ڈل جھیل کے صاف و شفاف پانی کی سطح پر تیرتے اور تیز ہواؤں کی لہروں کے ساتھ بل کھاتے ہاؤس بوٹوں، شکاروں، زبرون پہاڑی کے دامن میں قائم ہوٹلوں کا ڈل جھیل میں نظر آنے والے دلفریب عکس اور بلیوارڈ روڑ پر سیاحوں کی غیر معمولی چہل پہل کی وجہ سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور مرکز وادی میں سیاحتی سرگرمیوں کی فوری بحالی کے امکانات کو یقینی بنانے، سیاحوں کے دلوں سے ڈر و خوف ختم کرنے اور ان کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے پابندِ عہد ہے اور سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کے یہاں قیام کو آسان اور یادگار بنانے کے لیے حکومت ہر ضروری اقدام اٹھانے اور انہیں ہر سیاحتی مرکز پر انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے اور سیاحتی شعبے سے وابستہ بیشتر ٹیکسی مالکان قرضے میں ڈوبے ہیں اور انہیں بغیر کوئی پیسہ کمائے انشورنس کی قسطیں اور ٹوکن ٹیکس ادا کرنا پڑرہا ہے ان کو خصوصی رعایت دی جا رہی ہے اور ان شاء اللہ مرکز کی طرف سے سیاحوں کو وادی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کے مثبت اور حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے اور کشمیر کی تنظیمِ نو کے بعد صورتِ حال میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملے گی اور ایک نئے کشمیر کا آغاز ہونے والا ہے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے لوگوں بالخصوص نوجوانوں کا آگے آنا ہو گا۔