عقائد و نظریات مذہبی مضامین

معبودان کفار اور شرعی احکام (قسط دوم)

بحث سوم:
معبودان کفار کی تعظیم اور جبرواکراہ

معبودان کفار کوسجدہ کرناہرصورت میں کفر ہے۔سجدہ کی طرح دیگرتعظیمی افعال واقوال بھی کفر ہیں۔جن افعال واقوال کوکفار اپنے معبودباطل کی تعظیم کے لیے انجام دیتے ہیں۔ان کو اختیار کرنا کفر ہے، کیوں کہ کفر یہ عمل میں کفار کی مشابہت ہے۔ خواہ معبود کفار ہونے کی حیثیت سے وہ تعظیمی اعمال کرے،یا کسی اور حیثیت سے، مثلاً سورج کومعبود کفار ہونے کی حیثیت سے سجدہ نہ کر ے، بلکہ کسی دوسری حیثیت سے سجدہ کرے تو بھی حکم کفر ہے۔ یہی حکم معبودان کفار کے لیے تعظیمی اعمال انجام دینے کا ہے کہ وہ ہرصورت میں کفر ہے۔

معبودان کفار کی تعظیم میں حیثیتوں کا لحاظ نہیں۔ کفار کی تعظیم میں حیثیتوں کا لحاظ ہے،یعنی کافر ہونے کی حیثیت سے تعظیم ہو تو کفر ہے۔ دوسری حیثیت سے تعظیم ہوتو کفر نہیں۔

کفار اپنے معبودان باطل کی تعظیم وتوقیر بھی معبود سمجھ کر انجام دیتے ہیں،اورغیر اللہ کومعبود سمجھ کر کوئی بھی عمل کرنا کفرہے، پس اس عمل کو انجام دینا کفر یہ عمل میں کفار سے مشابہت ہے، لہٰذا یہ کفر ہے۔ غیر مومن معبودان کفار کی دیگر تعظیم وتوقیر اس لیے کفر ہے کہ غیر مومن معبودان باطل کی تعظیم وتوقیر علامت کفر ہے،نیز غیر مومن معبودان باطل کی تعظیم وتوقیر کا حکم شریعت میں وارد نہیں ہوا۔

(اذ ا اکرہ المسلم علی تعظیم الاوثان فنطق بما یدل علی ذلک- او فعل امرا لم یصر وثنیا-کسائر الاکراہ علی الکفر-ما دام القلب مطمئنا بالایمان)(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ ج42-ص354-وزارت اوقاف و معارف اسلامیہ:کویت)

ترجمہ: جب مسلمان کو بتوں کی تعظیم پر مجبور کیا جائے،پس وہ ایسا قول یافعل کرے جوتعظیم پر دلالت کرے تووہ بت پرست نہیں ہوگا، جیسے کفر پر مجبور کرنے کی ساری صور تیں ہیں، جب تک کہ دل ایمان پر مطمئن رہے۔

منقولہ بالااقتباس سے واضح ہے کہ تعظیم اصنام میں صرف جبر واکراہ کی صورت مستثنی ہے،نیز اس میں حیثیتوں کا فرق معتبر نہیں۔پتھر کے بت کو بت سمجھ کر تعظیم کرے،تب بھی کفر ہے۔اگر بت کومحض ایک پتھر سمجھ کر تعظیم کرے،تب بھی کفر ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اولو العزم رسول ونبی ہیں۔ ان کی پیغمبرانہ حیثیت ہی زیادہ متعارف ہے۔ اس کے باوجود ان کی تصویر کا سجدۂ تحیت بھی کفر ہے،کیوں کہ نصاریٰ نے انہیں معبود بنالیا ہے۔ اسی طرح سورج کو بھی بعض قومیں پو جتی ہیں تو یہاں بھی فرق حیثیت کا اعتبارنہیں۔

جن مومنین صالحین وانبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کو کفار نے معبود بنالیا ہو، ان کی جائز تعظیم وتوقیر کی جائے گی، کیوں کہ شریعت اسلامیہ میں ان کی تعظیم کا حکم ہے۔
معبودان کفار میں جو مومن نہیں،ان کی تعظیم وتوقیر حکم شریعت میں وارد نہیں۔ خواہ وہ معبود باطل کافر ہو، یا فرضی اور خیالی۔سبب تعظیم یعنی ایمان متحقق نہیں تو ان کی تعظیم بھی علامت کفر ہے۔

معبودان کفار کی تصویر کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا کفر
معبودان کفار کی تصویر کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا کفر ہے،کیوں کہ یہ معبود ان باطل کی تعظیم ہے،اورغیر مومن معبودان باطل کی تعظیم وتوقیرکفرہے۔

فتاویٰ رضویہ سے ایک سوال وجواب منقولہ ذیل ہے۔
مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اہل ہنود میں کم زیادہ ایک ہفتہ تک شام سے آدھی رات تک یا بعد تک ایسی مجلس ہوتی رہے کہ جس میں رام ولچھمن وراون وسیتا وغیرہ عورت ومرد کے قسم قسم کی تصویریں دکھائی جائیں اورساتھ ہی ان کے طرح طرح کاباجابجا کر بھجن وغیرہ گانا گایا جائے اور ان تصویروں کو نعوذ باللہ معبود حقیقی سمجھیں اور ہر طرح کے فحش ولغویات پیدا ہوتے ہوں تو ایسی مجلسوں میں ان مسلمانوں کو جو ازروئے تحقیق مذہب اسلام ایسی تقاریب کی برائیوں سے بھی فی الجملہ واقف ہوں اور نمازی بھی ہوں، شریک مجلس ہونا اور دلچسپی حظ نفس اٹھانا وبعض بعض شبیہ ناپاک پر نظر ڈالنا وبعض شبیہ عورات پرشہوت کی نظر ڈالنا اور مثل عقائد باطلہ اہل ہنود تعریف و توصیف سوانگ وتماشہ میں بتا لیف قلوب مشرکین تائید یا ہوں ہاں کرنا۔

اور عشا وفجر کی نمازیں بایں نمط کہ عشا بمصروفی تماشہ وفجر کی نماز غلبہ نیند سے قضا کرنا وباعتراض بعض مانعین یہ کہنا کہ ہم تو حق و باطل میں امتیاز ہوجانے کی غرض سے شامل ہوتے ہیں اور ایسی ہی بے سود تاویلات کرنا اور زینت مجلس کے واسطے اپنے گھروں سے جاجم ودیگر فرش وچوکیات وپارچہ وزیورات دینا اور بوقت اختتام جلسہ اپنی نام آوری یا فخر یا شخصیت یا اہل ہنود میں اپنی وقعت ہونے یا بصورت نہ دینے کے اپنی ذلت وحقارت جان کر ہمراہ اہل ہنود روپیہ روپیہ دینا بالخصوص وہ مسلمان جو کسی مسافر مسکین کو باوجود مقدرت آنہ دو آنہ نہ دے سکتے ہوں اور اس مجلس کی شیرینی جو بنام نہاد پرشاد تقسیم ہوتی ہے، کھانا تو ایسے مسلمانوں کے واسطے ازروئے احکام شرع شریف کیا کیا حکم ہے۔

صاف صاف مع عبارت قرآن مجید وحدیث شریف وفقہ مبارک جداگانہ ہر امور مستفسرہ صدر کا جواب مفصل ارقام فرمائیں۔اللہ تعالیٰ اجر دے گا۔فقط والسلام علی ختم الکلام

الجواب:ایسے لوگ فساق فجار کبائر مستحق عذاب نار وغضب جبار ہیں۔ مسلمان کو حکم ہے راہ چلتاہوا کفار کے محلہ سے گزرے تو جلد نکل جائے کہ وہ محل لعنت ہے،نہ کہ خاص ان کی عبادت کی جگہ، جس وقت وہ غیر خدا کو پوج رہے ہوں،قطعا اس وقت لعنت اترتی ہے اور بلا شبہ اس میں تماشائیوں کا بھی حصہ ہے۔

یہ اس وقت ہے کہ محض تماشا مقصود ہو، اور اسی غرض سے نقد واسباب دے کر اعانت کی جاتی ہو،اور اگر ان افعال ملعونہ کو اچھا جانا یا ان تصاویر باطلہ کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا یا ان کے کسی حکم کفر پر”ہوں ہاں“ کہا جیسا کہ سوال میں مذکور، جب تو صریح کفر ہے۔

غمز العیون میں ہے:من استحسن فعلا من افعال الکفار کفر باتفاق المشائخ۔

ان لوگوں کواگر اسلام عزیز ہے اور یہ جانتے ہیں کہ قیامت کبھی آئے گی اور واحد قہار کے حضور جانا ہوگا تو ان پر فرض ہے کہ توبہ کریں اور ایسی ناپاک مجلسوں سے دور بھاگیں، نئے سرے سے کلمہ اسلام اور اپنی عورتوں سے نکاح جدید کریں ورنہ عذاب الٰہی کے منتظر رہیں۔

قال اللہ تعالیٰ: یایھا الذین اٰمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا خطوٰت الشیطن ان الشیطن للانسان عدومبین“۔(فتاویٰ رضویہ:جلد نہم:جزدوم:ص137-رضا اکیڈمی ممبئ)

آیت طیبہ: (یایھا الذین اٰمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا خطوٰت الشیطن ان الشیطن للانسان عدومبین)
ترجمہ:اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو، کیوں کہ وہ انسان کا کھلا اور واضح دشمن ہے۔

(من استحسن فعلا من افعال الکفارکفر باتفاق المشائخ)
ترجمہ:جس شخص نے کافروں کے افعال میں سے کسی فعل کو اچھاسمجھاتومشائخ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ بلا شک وشبہ کافر ہوگیا ہے۔ (غمز العیون)

معبودان باطل کی تصویروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا کفر ہے،کیوں کہ یہ معبودان باطل کی تعظیم وتوقیرہے،اوریہ کفر ہے۔معبودان باطل کی تعظیم وتوقیرعلامت کفر ہے۔

کفار کے بتوں اورمذہبی جذبات کی تعظیم کفر

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”کفار کے مذہبی جذبات اور ان کے دیوتاؤں اورپیشواؤں کوعزت دینا صریح کلمہ کفر ہے:قال اللہ تعالیٰ:وللّٰہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنافقین لایعلمون۔عزت تو خاص اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے لیے ہے،مگر منافقوں کو خبر نہیں۔

ان کے دیوتاؤں اورپیشواؤں اور مذہبی جذبات کا اعزاز درکنار،جوان کے کسی فعل ہی کی تحسین کرے،باتفاق ائمہ کافر ہے۔غمز العیون والبصائر میں ہے:من استحسن فعلا من افعال الکفارکفر باتفاق المشائخ۔ان لوگوں پرفرض ہے کہ ایسی باتوں سے توبہ کریں،تجدید اسلام کریں،تجدید نکاح کریں:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم:ص126-125-رضا اکیڈمی ممبئ)

معبودان کفار کی جے پکارنا کفر
(1)امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”اگر معبودان کفار کی جے ہے تو کفر ہے، اور اگر کافروں کی ہے تو فقہا ئے کرام اسے بھی کفرفرماتے ہیں۔فتوائے ظہیریہ واشباہ والنظائر وتنویر الابصار ودر مختار میں ہے:(لو سلم علی الذمی تبجیلا یکفر لان تبجیل الکافر کفر-ولو قال لمجوسی یا استاذ تبجیلا کفر)

(اگر کسی نے تعظیم کرتے ہوئے ذمی کو سلام دیا توکافر ہوجائے گا،کیوں کہ کافر کی تعظیم کفر ہے۔ اگر کسی نے مجوسی کو بطورتعظیم ”اے استاذ“کہا تو کفر ہے۔ت)
(فتاویٰ رضویہ:جلد چہاردہم:ص674-جامعہ نظامیہ لاہور)

معبودان کفار کی جے پکارنایعنی اس کی تعظیم کرناہرصورت میں کفر ہے۔کفار کی تعظیم اس وقت کفر ہے، جب کافرہونے کی حیثیت سے اس کی تعظیم کرے۔ دیگر اعتبارسے کافر کی تعظیم حرام ہے۔ ضرورت ومصلحت کے سبب میل جول حرام نہیں۔

(2)مسئلہ:بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، الحمدللہ العلی العظیم والصلوٰۃ علی النبی الکریم واٰلہ وصحبہ المکرمین آمین!کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چندوسی میں مسلمانوں نے ہنود، مشرکین سے اتفاق کرنے میں یہ آثار ظاہر کئے کہ سوائے نوبت نقارے نوازی اور ناچ رنگ نا مشروع کے ایسا مبالغہ اور عروج ان کی رسوم جلادینے میں کہ بعض فریق تلک، قشقہ، سندے برہمنوں کے ہاتھ سے اپنی پیشانی پر کھنچوا کر خوش اور مسرور ہوا،اور بعض فریق برہمنوں کے ساتھ جے رام چند رجی اور جے سیتاجی کی بول اٹھا اور بعض فریق نے ہمراہ ہنود تخت رواں نستہ عورتوں کے گشت کی،اور وہ تخت رواں خلاف سالہائے گزشتہ پیوستہ کے بے خوف و خطر گلی کوچہ پھر اکر مسلمانوں کے جائے جلوس پر ہنود لائے، مسلمانوں نے سوائے تواضع پان، پھول اور ہار، الائچی وغیرہ ان کے آنے کا شکریہ بفخریہ ادا کرکے شیرینی کی تھالی پیش کی۔اس عمل سے کس فریق کی عورت نکاح سے باہر ہوئی اور کون مبتلائے کفر ہوا،اور کون مرتکب گناہ کبیرہ ہوا، اور ہر فریق کی توبہ کی صورت کیا ہے؟

الجواب: وہ جنہوں نے برہمن سے قشقہ کھنچوایا،وہ جنہوں نے ہنود کے ساتھ وہ جے بولی،کافر ہوگئے۔ان کی عورتیں ان کے نکاح سے نکل گئیں،اور وہ کہ گشت میں شریک ہوئے اگر کافر نہ ہوئے تو قریب بکفر ہیں۔

حدیث میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:من سود مع قوم فھو منھم-وفی لفظ:من کثر سوادقوم۔جو کسی قوم کا مجمع بڑھائے وہ انہیں میں سے ہے۔

اور وہ جنہوں نے بت کے لانے پر شکریہ ادا کیا اور خوش ہوئے۔ان پر بھی بحکم فقہا کفر لازم ہے۔غمز العیون میں ہے:اتفق مشائخنا ان من رأی امرالکفار حسنا فقد کفر۔جس نے کافر کے عمل کو اچھا جانا وہ باتفاق مشائخ کافر ہوجاتا ہے۔ان پر لازم ہے کہ توبہ کریں اور از سر نو کلمہ اسلام پڑھیں اور اپنی عورتوں سے نکاح جدید کریں: واللہ تعالیٰ اعلم۔
(فتاویٰ رضویہ:جلدچہاردہم:ص319-318-جامعہ نظامیہ لاہور)

منقولہ بالا فتویٰ میں دوفریق یعنی قشقہ لگانے والوں اور معبودان کفار کی جے پکارنے والوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کی عورتیں نکاح سے باہر ہوگئیں،یعنی حکم کفر ان لوگوں کے لیے ثابت ہے۔بعد میں متعدد فریق کے بارے میں فرمایاگیا کہ ان لوگوں پر بحکم فقہا کفر لازم آتاہے۔وہ لوگ توبہ،تجدید ایمان اور تجدید نکاح کریں۔

اگر عبادت کی نیت سے قشقہ لگایا اور معبود ان باطل کو معبود سمجھ کر جے پکار ا،تب کفر کلامی ہے،ورنہ کفر فقہی۔اسی طرح اگر مذکورہ امور کو حلال سمجھ کرانجام دے تو بھی کفر کلامی ہے۔اس صورت میں بیوی نکاح سے نکل گئی اور نکاح ٹوٹ گیا۔ اگر عبادت کی نیت سے قشقہ نہیں لگایا،نہ معبودسمجھ کرجے پکار ا،نہ ان امور کو حلال سمجھا تو کفر فقہی ہے۔ کفرفقہی کی صورت میں فقہا کے اصول کے مطابق عورت نکاح سے نکل جاتی ہے،لیکن چوں کہ متکلمین کے اصول کے مطابق کفر ثابت نہ ہوتا ہے تو فقہا ئے کرام فساد نکاح کا حکم نہیں دیتے،بلکہ صرف تجدید نکاح کا حکم دیتے ہیں۔در اصل کافر فقہی من کل الوجوہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا،بلکہ فقہا کے اصول کے مطابق اسلام سے خارج ہوتا ہے،یعنی قریب الخروج۔

(3)امام اہل سنت علیہ الرحمۃوالرضوان نے رقم فرمایا:”علمانے دوسرے کے کفر پر راضی ہونے کو کفر لکھا ہے۔ الرضا بالکفر کفر۔ نہ کہ دوسرے کو کافر بنانے میں کوشش۔یہ بلا شبہہ بحکم فقہا کفر ہے۔ بحکم فقہائے کرام ایسے شخص کی عورت اس کے نکاح سے نکل جائے گی“۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد ششم:ص22-رضا اکیڈمی ممبئ)

معبودان کفار کی تعظیم کفر ہے اورقشقہ لگانا کفر فقہی ہے۔یہ شعار کفر ہے،نیز یہ ہنود کا طریق عبادت بھی ہے۔جب عبادت کی نیت سے ہو یاحلال سمجھ کرلگائے،،تب کفر کلامی ہے۔

(4)امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:”قشقہ کہ ماتھے پر لگایا جاتاہے، صرف شعار کفار نہیں،بلکہ خاص شعارکفر،بلکہ اس سے بھی اخبث،خاص طریقہ عبادت مہادیو وغیرہ اصنام سے ہے۔اس کے لگانے پر راضی ہونا کفر پر رضا ہے،اوراپنے لیے ثبوت کفر پر رضا بالاجماع کفر ہے“۔ (فتاویٰ رضویہ:جلد چہاردہم ص 676-جامعہ نظامیہ لاہور)

قشقہ لگانا شعار کفر بھی ہے اورعبادت کفار بھی۔ جو عبادت کی نیت سے لگائے،وہ کافر کلامی ہوگا۔ کفر فقہی کا حکم اس وقت ہوگا جب عبادت کی نیت نہ ہو۔

(5)امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے تحریر فرمایا:”کارڈ میں بعض افعال گاندھویہ کہ فقہاً کفر ہیں، جیسے قشقہ لگانا،کافر کی جے پکارنا، کافر کی تعظیم،گناکر ان کے فاعلوں کوکہا ہے کہ یہ مسلمان یا وہ۔ان میں کون مسلمان ہے،بلا شبہہ جس طرح کفر فقہی میں مبتلاہوئے، اور استحلال کریں توکفر کلامی میں۔بعینہ یہی حالت فقہاً وکلاماً ان افعال واقوال کے مرتکبین کی ہے‘‘۔(فتاویٰ رضویہ:جلد15:ص160-جامعہ نظامیہ لاہور)

(6)”ماتھے پر قشقہ لگانا خاص شعار کفر ہے،اوراپنے لیے جو شعار کفر پر راضی ہو، اس پر لزوم کفر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ من شبہ بقوم فہو منہ۔جوکسی قوم سے مشابہت کرے، وہ انہیں میں سے ہے۔ اشباہ والنظائر میں ہے۔عبادۃ الصنم کفرولا اعتبار بما فی قلبہ۔وکذا لوتزنر نزنار الیہود والنصاری -دخل کنیستہم اولم یدخل:واللہ تعالی اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد نہم:جزدوم:ص 316 -رضا اکیڈمی ممبئ)

(7)امام اہل سنت نے اپنی خوشی سے قشقہ لگوانے والوں کے بارے میں رقم فرمایا:

”قشقہ زنار کی طرح شعارکفر، بلکہ اس سے بدتر شعاربت پرستی ہے۔ زنار بعض ملکوں کے یہود ونصاریٰ میں بھی ہے،اورقشقہ خاص علامت وشعار مذہب مشرکین وعبدۃ الاصنام۔ وہ لوگ اسلام سے خارج ہوگئے،اور ان کی عورتیں ان کے نکاح سے“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلدچہاردہم:ص 678-جامعہ نظامیہ لاہور)

(8)امام اہل سنت نے ہنود سے قشقہ لگوانے والے دوفریق سے متعلق رقم فرمایا:
”وہ کافر تھے۔یہ اکفر ہوئے۔ دونوں فریق اسلام سے نکل گئے،اور ان کی عورتیں ان کے نکاح سے۔ان پر ویسے ہی مجمع کثیر میں علی الاعلان توبہ کرنا،ازسر نومسلمان ہونا فرض ہے“۔(فتاویٰ رضویہ:جلد چہاردہم:ص 677-جامعہ نظامیہ لاہور)

بتوں پر پھول چڑھانا عبادت کفار
امام احمدرضا قادری نے تحریر فرمایا:”جو مرتکب حرام ہے،مستحق عذاب جہنم ہے، اور جو مرتکب کفر فقہی ہے،جیسے دسہرے کی شرکت یاکافروں کی جے بولنا،اس پر تجدید اسلام لازم ہے،اور اوراپنی عورت سے تجدید نکاح کرے، اور جوقطعاً کافر ہوگیا،جیسے دسہرے میں بطور مذکور ہنود کے ساتھ ناقوس بجانے یامعبودان کفار پر پھول چڑھانے والا کافر مرتد ہوگیا، اس کی عورت نکاح سے نکل گئی۔اگر تائب ہو،اور اسلام لائے، جب بھی عورت کواختیار ہے۔ بعد عدت جس سے چاہے،نکاح کرلے،اوربے توبہ مرجائے تو اسے مسلمانوں کی طرح غسل وکفن دینا حرام،اس کے جنازے کی شرکت حرام،اسے مقابر مسلمین میں دفن کرنا حرام،اس پر نماز پڑھنا حرام،الیٰ غیر ذلک من الاحکام:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم:ص149-150-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح: بتوں پر پھول چڑھانا اور ہنودکی طرح ناقوس بجانا بھی کفر ہے۔کفار ان امور کو اپنے معبودان باطل کی عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ ان امور کو انجام دینا کفار کے کفریہ فعل سے مشابہت ہے۔کفریہ فعل میں کفار کی مشابہت کفر ہے۔

بحث چہارم:
نیت کے سبب تعظیم یا عبادت

بعض امور نیت کے سبب عبادت ہوجاتے ہیں۔ ایسے امورمیں کسی غیر اللہ کی عبادت کی نیت سے کفرکلامی کا حکم ہوگا۔بعض امور نیت کے سبب تعظیم ہوجاتے ہیں۔ معبودان کفار کی تعظیم کی نیت سے ایسے امور انجام دینے سے کفر کا حکم عائد ہوگا۔

جو اعمال نیت کے سبب تعظیم یاعبادت ہو جاتے ہوں،اس میں فاعل کی نیت کے اعتبار سے حکم نافذ ہوگا۔ اگر کوئی کام عبادت معبودان باطل کے لیے متعین نہیں،لیکن عبادت کی نیت سے کرے تو کفر کلامی ہے۔ یہاں فاعل کی نیت کا اعتبار ہے۔

(1)امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:”جو شخص عبادت غیر کا قصد کرے، ضرورمشرک ہے“‘۔(فتاویٰ رضویہ:جلد نہم:جزاول:ص210-رضااکیڈمی ممبئ)

(2)امام اہل سنت نے رقم فرمایا:”عبادت غیر کی نیت خو د ہی کفر ہے،گرچہ اس کے ساتھ کوئی فعل نہ ہو“۔(فتاویٰ رضویہ:جلدنہم:جزدوم:ص114-رضا اکیڈمی ممبئ)

(3)امام اہل سنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان نے رقم فرمایا:
”اگر لچھمن کو روپیہ معاذاللہ بطورعبادت بھینٹ چڑھاتا ہے تو قطعا یقینا مر تد کافر، اور اس فعل ملعون کے بدترین فسق وفجور قریب بہ کفر ہونے میں تو کلام ہی نہیں“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد سوم: ص 162-رضا اکیڈمی ممبئ)

(4)اعلیٰ حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمۃوالرضوان نے رقم فرمایا:(وتعلیق تلک التصاویر النجسۃ علی الجدران ان کان علی مایتعاداہ المجان یزعمون فیہ تزیین المکان غیر متعمدین الی الکفرمن الکفران فکبیرۃ خبیثۃ تدعوا الی النیران وتبعد الملٰئکۃ وتقرب الشیطان،وان وقع علٰی جھۃ استحسان صنیع الکفاروتعظیم اٰلھۃ اصحاب النارفکفر صریح جلی الاکفار)

(اور بتوں کی ناپاک تصویروں کو دیواروں پرآویزاں کرنا اگر ویسے عادت کے طور پر کہ اس کو پاگل لوگ مکانات کی زینت سمجھتے ہیں اور کسی کو کفر کی طرف تجاوز نہ کیا ہوتویہ خبیث ترین کبیرہ گناہ ہے جو جہنم میں لے جانے والا فرشتوں کودور اور شیطانوں کو قریب کرنے والا ہے، اور اگر یہ کام کفار کی رسم کو پسند کرتے ہوئے اور دوزخیوں کے معبودوں کی تعظیم کے طور پر کیا ہوتو یہ صریح کفر جو اس کی تکفیر کا باعث ہے:ت)
(فتاویٰ رضویہ:جلد 13-ص487-جامعہ نظامیہ لاہور)

تصویروں کو محض زینت کی نیت سے دیواروں پر لگایا۔تعظیم کا قصد نہیں،بلکہ دیواروں کی محض تزئین وآرائش مقصود ہے،تب کفر نہیں۔وہ محض فوٹو اورتصویر سمجھ کر دیواروں پر لگایا ہے۔اگرمعبودان کفارکی تعظیم کا قصد ہو،یا فعل کفار کی تحسین مقصودہوتوکفرہے۔
دراصل فوٹو دیوار پرلگانا دیواروں کی تزئین وآرائش کے لیے بھی ہوتا ہے اور کسی کی تعظیم کے لیے بھی۔ ایسی صورت میں نیت کا اعتبار ہوگا۔ جوکام تعظیم ہی کے لیے ہوتے ہیں،ان میں نیت کا اعتبار نہیں،مثلاً ان تصویروں پرپھول چڑھانا تو یہ کام کفار اپنے معبودوں کی تعظیم کے واسطے کرتے ہیں،لہٰذا ان تصویروں پر پھول چڑھانا کفر ہوگا۔

معبودان کفار کے نام پر غلام آزاد کرنا کفر

بت کے نام پر غلام آزادکرنے سے غلام آزاد ہوجائے گا،لیکن اگر بت کی تعظیم مقصود ہوتو یہ کفرہے۔شیطان کے نام پرغلام آزاد کرنے سے بھی غلام آزاد ہو جائے گا۔ شیطان کافر ہے،لیکن معبود کفار نہیں، گر چہ بت پرستی اورکفروضلالت میں شیطانی وسوسو ں کا دخل ہوتا ہے۔ عہد حاضر میں یہودی قوم کے بعض لوگ شیطان کو پوجنے لگے ہیں۔

بقصد تعظیم بت کے نام پر غلام آزاد کرنا مطلقاً کفر ہے،اوربقصد تعظیم شیطان کے نام پر غلام آزاد کرنا اس وقت کفر ہے،جب اس کے کافر ہونے کی حیثیت سے اس کی تعظیم کرے۔اگر یہ حیثیت ملحوظ نہ ہوتوبقصدتعظیم شیطان کے نام پر غلام آزادکرنا حرام ہے، کیوں کہ کافر کی تعظیم حرام ہے۔

بقصد تعظیم شیطان کے نام پر غلام آزاد کرنے کو بعض فقہا کفر کہتے ہیں اور بعض حرام کہتے ہیں، پس وجہ اختلاف یہی ہے کہ شیطان کی تعظیم میں دوحیثیت کا لحاظ ہوگا۔

کافرہونے کی حیثیت سے اس کی تعظیم کفر ہے۔دیگر کسی حیثیت سے شیطان کی تعظیم حرام ہے۔ بت یعنی معبود باطل کی تعظیم ہر صورت میں کفر ہے،اسی لیے بقصد تعظیم بت کے نام پرغلام آزاد کرنا تمام فقہائے کرام کے یہاں کفر ہے۔ اس میں اختلاف نہیں۔

(1)امام علاء الدین حصکفی نے رقم فرمایا:(و)یصح ایضا بتحریر(لوجہ اللہ والشیطان والصنم-وان)اثم و(کفربہ)ای بالاعتاق للصنم(المسلم عند قصد التعظیم)لان تعظیم الصنم کفر-وعبارۃ الجوہرۃ:لو قال للشیطان او الصنم کفر)(الدر المختارجلدسوم:ص714-مکتبہ شاملہ)

ترجمہ: غلام کو اللہ کے نام پر اور شیطان وبت کے نام پر آزاد کرنا بھی صحیح ہے،گر چہ گنہگار ہوگااورکافر ہوگا،یعنی بت کے نام پر آزادکرنے سے مسلمان کافر ہوجائے گا، جب کہ تعظیم کا قصد ہو، کیوں کہ بت کی تعظیم کفر ہے۔

توضیح:ایک شخص نے اپنے نیک شریف غلام کو اللہ تعالیٰ کے نام پر آزاد کیا۔ شریر غلام کوبت کے نام پر آزاد کیا تو یہاں شریر غلام کوبت کے نام پر آزاد کرنا بت کی تنقیص ہے،نہ کہ تعظیم۔ اس طرح بت کے نام پر آزاد کرنا کفر نہیں۔اگربت کی تعظیم کے واسطے غلام کوبت کے نام پر آزاد کیا تویہ کفر ہے، کیوں کہ بت معبود کفار ہے اور معبود کفار کی تعظیم کفر ہے۔

جوہرہ نیرہ میں ہے کہ شیطان کے نام پر غلام آزادکرنا بھی کفر ہے۔ کفر کا سبب یہ ہے کہ شیطان کافر ہے، اور کافر ہونے کی حیثیت سے کافر کی تعظیم کفر ہے۔ اب کسی نے اسی کافرانہ حیثیت سے شیطان کی تعظیم کرتے ہوئے اس کے نام پر غلام آزاد کیا تو ضرور کفرہے، کیوں کہ اس صورت میں کفر کی تعظیم ہے۔کفر کی تعظیم کفر ہے، جیسے اسلام کی تحقیر کفر ہے۔
جن فقہائے اسلام نے شیطان کی تعظیم کے لیے اس کے نام پر غلام آزاد کرنے کو حرام قرار دیاتو اس کاسبب یہ ہے کہ شیطان کافر ہے اور کافرکی تعظیم حرام ہے،پس اس کے نام پر بقصد تعظیم غلام آزاد کرنا حرام ہے۔کافرکی تعظیم میں مختلف حیثیتوں کا لحاظ ہوگا۔
غیرمومن معبود کفار کی تعظیم میں حیثیت کا لحاظ نہیں ہوگا۔وہ کسی اعتبارسے مستحق تعظیم نہیں، نیز اس کی تعظیم علامت کفر ہے۔کفار کی تعظیم علامت کفر نہیں ہے۔

(2)علامہ شامی قدس سرہ العزیزنے منقولہ بالاعبارت کی تشریح میں رقم فرمایا:
(قَوْلُہُ وَبِتَحْرِیرٍ لِوَجْہِ اللَّہِ تَعَالَی إلَخْ)-لِأَنَّہُ نَجَّزَ الْحُرِّیَّۃَ وَبَیَّنَ غَرَضَہُ الصَّحِیحَ أَوْ الْفَاسِدَ فَلَا یَقْدَحُ فِیہِ کَمَا فِی الْبَدَاءِعِ، وَالْمُرَادُ بِوَجْہِ اللَّہِ تَعَالَی ذَاتُہُ أَوْ رِضَاہُ وَالشَّیْطَانُ وَاحِدُ شَیَاطِینِ الْإِنْسِ أَوْ الْجِنِّ، بِمَعْنَی مَرَدَتِہِمْ.
وَالصَّنَمُ: صُورَۃُ الْإِنْسَانِ مِنْ خَشَبٍ أَوْ ذَہَبٍ أَوْ فِضَّۃٍ، فَلَوْ مِنْ حَجَرٍ فَہُوَ وَثَنٌ کَمَا فِی الْبَحْرِ-(قَوْلُہُ وَإِنْ أَثِمَ وَکَفَرَ بِہِ)لَفٌّ وَنَشْرٌ مُرَتَّبٌ.
فَالْإِثْمُ فِی الْإِعْتَاقِ لِلشَّیْطَانِ وَالْکُفْرُ فِی الْإِعْتَاقِ لِلصَّنَمِ بِقَرِینَۃِ تَفْسِیرِہِ مَرْجِعَ الضَّمِیرِ الْمَجْرُورِ-وَإِلَّا فَلَا فَاءِدَۃَ فِی زِیَادَتِہِ لَفْظَ أَثِمَ-لَکِنْ لَا یَظْہَرُ فَرْقٌ بَیْنَہُمَا-وَمَا فَعَلَہُ الشَّارِحُ ہُوَ مَا مَشَی عَلَیْہِ الْمُصَنِّفُ فِی الْمِنَحِ-وَہُوَ ظَاہِرُ الْبَحْرِ أَیْضًا-وَالْأَظْہَرُ مَا فِی الْمَتْنِ وَالْجَوْہَرَۃِ مِنْ الْکُفْرِ بِکُلٍّ مِنْہُمَا)
(رد المحتار جلد13-ص311-مکتبہ شاملہ)

تو ضیح:علامہ ابن نجیم مصری نے الاشباہ والنظائر اور البحر الرائق دونوں میں صرف بت کے نام پر بطور تعظیم غلام آزاد کرنے کو کفر لکھا ہے۔شیطان کافر ہے،لیکن عہد ماضی میں براہ راست شیطان کومعبود ماننے والے لوگ نہیں تھے،گرچہ بتوں کی پرستش بھی شیطانی وسوسوں کے سبب ہوئی۔عہد حاضر میں یہودیوں کی ایک جماعت شیطان کوپوجتی ہے۔

شیطان کافر ہے۔اس کی تعظیم حرام اور گناہ ہے۔ کافر کی تعظیم جب کافر ہونے کی حیثیت سے ہو،تب کفر ہے، کیوں کہ یہ کفر کی تعظیم ہے۔

(3)امام ابن نجیم مصری نے رقم فرمایا:(قَالُوا:وَالْہَدَایَا کَالضَّحَایَا-وَأَمَّا الْعِتْقُ فَعِنْدَنَا لَیْسَ بِعِبَادَۃٍ وَضْعًا بِدَلِیلِ صِحَّتِہِ مِنْ الْکَافِرِ وَلَا عِبَادَۃَ لَہُ.

فَإِنْ نَوَی وَجْہَ اللَّہِ تَعَالَی کَانَ عِبَادَۃً مُثَابًا عَلَیْہَا،وَإِنْ أَعْتَقَ بِلَا نِیَّۃٍ صَحَّ وَلَا ثَوَابَ لَہُ إنْ کَانَ صَرِیحًا-وَأَمَّا الْکِنَایَاتُ فَلَا بُدَّ لَہَا مِنْ النِّیَّۃِ فَإِنْ أَعْتَقَ لِلصَّنَمِ أَوْ لِلشَّیْطَانِ صَحَّ وَأَثِمَ.

وَإِنْ أَعْتَقَ لِأَجْلِ مَخْلُوقٍ صَحَّ،وَکَانَ مُبَاحًا لَا ثَوَابَ وَلَا إثْمَ.
وَیَنْبَغِی أَنْ یُخَصَّصَ الْإِعْتَاقُ لِلصَّنَمِ بِمَا إذَا کَانَ الْمُعْتِقُ کَافِرًا-أَمَّا الْمُسْلِمُ إذَا أَعْتَقَ لَہُ قَاصِدًا تَعْظِیمَہُ کَفَرَ،کَمَا یَنْبَغِی أَنْ یَکُونَ الْإِعْتَاقُ لِمَخْلُوقٍ مَکْرُوہًا)(الاشباہ والنظائر:جلد اول ص23-مکتبہ شاملہ)

توضیح:بت کی تعظیم کے قصدسے بت کے نام پر غلام آزاد کرنے والا کافر ہے۔

(4)امام ابن نجیم مصری نے رقم فرمایا:(قَوْلُہُ (وَبِتَحْرِیرٍ لِوَجْہِ اللَّہِ وَلِلشَّیْطَانِ وَلِلصَّنَمِ)أَیْ یَصِحُّ الْعِتْقُ بِتَحْرِیرٍ ہو عِبَادَۃٌ أو مَعْصِیَۃٌ لِأَنَّ الْإِعْتَاقَ ہو الرُّکْنُ الْمُؤَثِّرُ فی إزَالَۃِ الرِّقِّ وَصِفَۃُ الْقُرْبَۃِ لَا تَأْثِیرَ لہا فی ذلک-أَلَا تَرَی أَنَّ الْعِتْقَ وَالْکِتَابَۃَ بِالْمَالِ مَشْرُوعَانِ وَإِنْ عَرِیَا عن صِفَۃِ الْقُرْبَۃِ فَلَا یَنْعَدِمُ بِعَدَمِہَا أَصْلُ الْعِتْقِ-وَلَا یَخْفَی أَنَّ الْإِعْتَاقَ لِلصَّنَمِ إنَّمَا ہو صَادِرٌ من کَافِرٍ-وأما إذَا صَدَرَ من مُسْلِمٍ فَیَنْبَغِی أَنْ یُکَفِّرَ بِہِ إذَا قَصَدَ تَعْظِیمَہُ۔

وَقَدَّمْنَا أَنَّ أَنْوَاعَہُ أَرْبَعَۃٌ فَرْضٌ وَمَنْدُوبٌ وَمُبَاحٌ وَمَعْصِیَۃٌ۔

وفی الْمُحِیطِ:أَنَّ الْإِعْتَاقَ قد یَقَعُ مُبَاحًا لَا قُرْبَۃً بِأَنْ أَعْتَقَ من غَیْرِ نِیَّۃٍ أو أَعْتَقَ لِوَجْہِ فُلَانٍ-وقد یَقَعُ مَعْصِیَۃً بِأَنْ أَعْتَقَہُ لِوَجْہِ الشَّیْطَانِ-اہ

فَفَرَّقَ بین الْإِعْتَاقِ لِآدَمِیٍّ وَبَیْنَ الْإِعْتَاقِ لِلشَّیْطَانِ وَعَلَّلَ حُرْمَۃَ الْإِعْتَاقِ لِلشَّیْطَانِ بِأَنَّہُ قَصَدَ تَعْظِیمَہُ وَکَذَا الْعِتْقُ بِلَا نِیَّۃٍ مُبَاحٌ کما فی التَّبْیِینِ
(البحر الرائق:کتاب العتق:جلدچہارم ص248-مکتبہ شاملہ)

(وعلل حرمۃ الاعتاق للشیطان بان قصد تعظیمہ)سے واضح ہے کہ شیطان کے نام پر غلام آزادکرنا حرام ہے،کیوں کہ شیطان کافر ہے اور کافر کی تعظیم حرام ہے۔ خواہ اس کے نام پر غلام آزادکرے،یا نہ کر ے۔شیطان کے کافرہونے کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔

جن فقہائے کرام نے شیطان کی تعظیم کے قصد سے اس کے نام پر غلام آزاد کرنے کو کفر قرار دیا۔ان کی مراد یہ ہے کہ کافر ہونے کی حیثیت سے شیطان کی تعظیم کرتے ہوئے اس کے نام پر غلام آزاد کرنا کفر ہے، کیوں کہ اس صورت میں کفرکی تعظیم ہے۔

جن فقہائے کرام نے شیطان کے نام پر غلام آزاد کرنے کوحرام کہا۔اس کا سبب یہ ہے کہ شیطان کافر ہے اور کافر کی تعظیم حرام ہے۔شیطان کے نام پر غلام آزاد کرنا اس کی تعظیم ہے،پس اس کے نام پر غلام آزاد کرنا حرام وگناہ ہوا۔

الغرض بت کی تعظیم کے کفر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں، کیوں کہ بت کو مشرکین پوجتے ہیں،وہ معبود کفار ہے۔ شیطان کی تعظیم کو بعض فقہا کفر کہتے ہیں اوربعض فقہا حرام کہتے ہیں۔اس کا سبب شیطان کی دوحیثیت ہے۔ بت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں، کیوں کہ بت کی تعظیم ہرصورت میں کفر ہے۔خواہ معبود کفار ہونے کی حیثیت سے اس کی تعظیم ہو، یا کسی دوسری حیثیت سے۔ہرصورت میں کفرہے۔

بحث پنجم:
کفار کی تعظیم کی متعددصورتیں اوراحکام

کافر کی تعظیم کی دو صورت ہے۔ کافر ہونے کی حیثیت سے کافر کی تعظیم کفر ہے،کیوں کہ اس صورت میں کفر کی تعظیم ہے،اور کفر کی تعظیم کفر ہے، جیسے اسلام کی تنقیص واستخفاف کفر ہے۔ کافر کی تعظیم کسی دوسری حیثیت سے حرام ہے، کفر نہیں۔

(1)امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”اگر معبودان کفار کی جے ہے تو کفر ہے، اور اگر کافروں کی ہے تو فقہا ئے کرام اسے بھی کفرفرماتے ہیں۔فتوائے ظہیریہ واشباہ والنظائر وتنویر الابصار ودر مختار میں ہے:(لو سلم علی الذمی تبجیلا یکفر لان تبجیل الکافر کفر-ولو قال لمجوسی یا استاذ تبجیلا کفر)

(اگر کسی نے تعظیم کرتے ہوئے ذمی کو سلام دیا توکافر ہوجائے گا،کیوں کہ کافر کی تعظیم کفر ہے۔ اگر کسی نے مجوسی کو بطورتعظیم ”اے استاذ“کہا تو کفر ہے۔ت)
(فتاویٰ رضویہ:جلد چہاردہم:ص674-جامعہ نظامیہ لاہور)

(2)امام اہل سنت نے رقم فرمایا:”شامی میں ہے:(ای لان فی ذلک تعظیمہ وقد نصوا علٰی حرمۃ تعظیمہ)یعنی اس لیے کہ اس میں اس کی تعظیم ہے،اوربے شک ائمہ دین نے تصریحیں فرمائیں کہ کافر کی تعظیم حرام ہے“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد16:ص615-رضا اکیڈمی ممبئ)

اقتباس اول میں کافر کی تعظیم کو کفر بتایا گیا اوراقتباس دوم میں حرام بتایا گیا۔دراصل کافر کی تعظیم کافر ہونے کی حیثیت سے کفر ہے۔ کافر کی تعظیم کافرانہ حیثیت کے اعتبارسے نہ ہوتو حرام ہے۔

(3)امام شہاب الدین حموی حنفی نے رقم فرمایا:
(قَوْلُہُ: فَلَوْ سَلَّمَ عَلَی الذِّمِّیِّ تَبْجِیلًا کَفَرَ.

قَالَ بَعْضُ الْفُضَلَاءِ: یَجِبُ تَقْیِیدُہُ بِأَنْ یَکُونَ تَعْظِیمًا لِکُفْرِہِ-وَإِلَّا فَقَدْ یَکُونُ لِإِحْسَانِہِ لِلْمُسْلِمِینَ أَوْ لِلْمُعَظِّمِ (انْتَہَی)(غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر:بالردۃ:جلدسوم:ص423-مکتبہ شاملہ)

کفار سے تعلق کی جائز وناجائز صورتیں

امام اہل سنت قدس سرہ نے رقم فرمایا:”(۱) معاملہ (۲) مدارات (۳) برواقساط (۴) معاشرت (۵) مداہنت (۶) رکون (۷) وداد (۸) اتحاد (۹) انقیاد (۱۰) تبتلان۔
مدارج عشرہ میں ہر دوسرا پہلے سے زائدہے، اور ہر پہلے میں دوسرے کی شرط کا انتفا ملحوظ ہے۔ پہلا بشرط لا شیء کے مرتبہ اوردوسرا بشرط شیء کے مرتبہ میں۔

موالات کی دوقسمیں ہیں: حقیقی وصوری۔ حقیقی کی پانچ قسمیں رکون سے آخر تک۔ یہ مطلقا ہمیشہ حرام ہیں ہر کافر سے، اور ہمیشہ حرام رہیں گی، اور صوری کی چار قسمیں مدارات سے مداہنت تک۔ان میں برو اقساط معاہدین سے جائز،حربی غیر معاہد سے حرام، یا بعض کے نزدیک ایک وقت میں حربی غیر محاربین سے حلال رکھا گیا تھا،پھر حرام فرمادیا اورا ب ابداً حرام ہے، اور چوتھی قسم مداہنت کسی وقت بھی حلال نہ تھی۔ غایۃ ضعف اضمحلال کے وقت ارشاد ہوا تھا:(ودوالوتد ھن فیدھنون) (وہ تو اس آرزو میں ہیں کہ کسی طرح تم نرمی کرو تو وہ بھی نرم پڑجائیں۔ ت)،مگرحالت اکراہ میں اس کی رخصت ہوگی،الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان (سوا اس کے جو مجبور کیا جائے اوراس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو۔ ت)

اورمعاشرت بضرورت وبمجبوری جائز،ورنہ حرام، اور جواز مدارات کے لئے ضرورت مجبوری درکارنہیں، مصلحت ہی کافی ہے،۔یہ اقسام موالات میں ان سب سے خارج معاملہ ہے کہ ہر کافر سے ہر وقت جائزہے مگر مرتدین سے، وللہ تعالی اعلم۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد14:ص597-596-جامعہ نظامیہ لاہور)

تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے