تحریر: ضیا المصطفی ثقافی
صدر المدرسین جامعہ حنفیہ رضویہ مانکپور شریف کنڈہ پرتاپ گڑھ
مذہبی گروہ کا کہنا ہے کہ تہوار اور میلے ہر قوم کی اپنی مذہبی و ثقافتی اقدار و نظریات کے ترجمان ہوتے ہیں اور اسلام چونکہ ایک الگ مستقل الہامی دین ہے اس لیے اس کی اپنی روایات واقدار ہیں جن کی نمائندگی کے لئے خود اسلام کے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی اُمت کے لئے دو تہوار (یعنی عیدالاضحی و عیدالفطر) مقرر کردیے ہیں اور ان تہواروں پر خوشی، تفریح اور اظہارِ جذبات کی حدود بھی عملی طور پر طے کردی ہیں جب کہ اس سے پہلے دورِ جاہلیت میں مروّج دیگر تہواروں اور میلوں پر یکسر خط ِتنسیخ پھیر دیا۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔
جب ہمارے سرکار حضرت محمد ﷺ مدینہ تشریف لائے تو (صحابہ کرام سے) فرمایا:
(وقد أبدلکم الله بهما خيرا منهما: يوم الفطر و يوم الأضحی) (صحیح سنن نسائی؛ ۱۴۶۵)
”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں:
عیدالفطر اور عیدالاضحی۔
“ لہٰذا اب کسی نئے یاپہلے سے مروّج غیرمسلموں کے تہوار کو اسلام میں داخل کرنا یا از خود کوئی تہوار مقرر کرلینا(جس میں حلال وحرام اور جائز و نا جائز یکساں ہو) نہ صرف یہ کہ جائز نہیں بلکہ دین میں اضافہ کرلینے کے مترادف ہے جبکہ دوسری طرف عیدین کی شکل میں جو دو تہوار ہمارے لئے حضرت محمد ﷺ نے مقرر فرما دیے ہیں ان میں بھی خوشی کے جذبات سے مغلوب ہوکر کسی ایسے اقدام کی اجازت نہیں جو اسلامی اقدار کے منافی یااسلامی روح کے خلاف ہو خواہ وہ اسراف و تبذیر کی صورت میں ہو یابے ہودگی اور جنسی بے راہ روی کی شکل میں! اس پس منظر میں مذہبی گروہ کا کہنا ہے کہ ’بسنت‘ ہندوانہ تہوار ہے جبکہ ’ویلنٹائن ڈے‘ جنسی بے راہ روی میں ڈوبے عیسائی معاشرے کا من گھڑت تہوار ہے لہٰذا انہیں مناناغیر مسلم اقوام کی مشابہت کرنا ہے خواہ اسے منانے کی شکل من و عن وہی ہو جو اُن اقوام کے ہاں پائی جاتی ہے یا اس سے قدرے مختلف؛ بہرصورت یہ غیر مسلم اقوام کی مشابہت میں داخل ہے، جس کی وعید خود نبی اکرم ﷺ نے یہ بیان فرمائی ہے :
(من تشبه بقوم فهو منهم) (ابوداود:۴۰۳۱)
”جس نے کسی (غیر) قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے۔ اللہ سب کو ہدایت دے اور اس طرح کے جملہ خرافات سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔آمین بجاہ سید المرسلین صلیﷲ علیه وسلم