از قلم : ابوحامد محمد شریف الحق رضوی
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جناب میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس میں ترک ادب کا شائبہ ہو ایسے الفاظ کا استعمال ممنوع ہے –
چنانچہ ارشاد خداوندی ہے
ياايها الذين امنوا لاتقولوا راعنا وقولواانظرنا واسمعوا وللكفرين عذاب اليم
( پارہ 1/ سورۂ بقرہ ‘ آیت ‘ 104/)
ترجمہ: اے ایمان والو! "راعنا ” نہ کہو ـ اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں ـ اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے ـ
(کنزالایمان)
صدرالافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کو کچھ تعلیم وتلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے راعنا يارسول الله اس کے یہ معنیٰ تھے کہ یارسول اللہ ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے یہود کی لغت میں یہ کلمہ سوء ادب کے معنیٰ رکھتا تھا انھوں نے اس نیت سے کہنا شروع کیا حضرت سعد بن معاذ یہود کی اصطلاح سے واقف تھے آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا اے دشمنان خدا تم پر اللہ کی لعنت اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا اس کی گردن ماردوں گا یہود نے کہا ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں اس پر آپ رنجیدہ ہوکر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں راعنا کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنیٰ کا دوسرا لفظ انظرنا کہنے کا حکم ہوا –
نیز اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس میں ترک ادب کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع –
دربار انبیاء میں آدمی کو ادب کے اعلیٰ مراتب کا لحاظ لازم ہے –
اور للکفرین میں اشارہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی جناب میں بےادبی کفر ہے –
(خزائن العرفان)
صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وعظ و نصیحت اور تعلیم وتلقین بسا اوقات پورے طور پر سن نہیں پاتے تو خدمت اقدس میں عرض کرتے – راعنا یارسول اللہ – اے اللہ کے رسول ہماری رعایت فرمائیں – صحابۂ کرام اس لفظ کا استعمال ایک اچھے معنی ہی کے لیے کیا کرتے تھے جس میں بےادبی کا شائبہ تک نہ تھا – لیکن چونکہ یہودی اس لفظ کو گالی کے معنی میں استعمال کرتے تھے – اور انھوں نے بری نیت سے یہ لفظ کہنا شروع کیا تھا – تو اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہ آیا کہ میرے محبوب کو ایسے لفظ سے پکارا جائے – جس میں برے معنی کا بھی پہلو ہو – چنانچہ مومنین کو حکم فرمایا کہ رسول کو "راعنا”نہ کہو – اس کی جگہ ایسا لفظ کہو جس میں بےادبی کا شائبہ بھی نہ ہو -چنانچہ مذکورہ بالا آیت کریمہ نازل ہوئی۔