تحریر: بلال احمد نظامی مندسوری،رتلام
فاؤنڈر: تحریک علمائےمالوہ
صالحین اور بزرگان دین کےیوم وفات پر اخذِ فیض و حصولِ برکات کےلیےہرسال عرس کی تقریبات کا اہتمام ہوتاہے۔
عرس کی شرعی حیثیت متعین کریں تو یہ ایک مستحسن اور مباح امر ہے،جو اسے فرض و واجب یا حرام کےدرجےمیں رکھے وہ دونوں طبقے افراط و تفریط کےشکار ہیں جنھیں سب سےپہلےاپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔
خانقاہی نظام کاوجود اور اعراس کی ابتدا اصلاحِ احوالِ امت وتعمیرِ امت کے نیک اور بلند جذبے کےتحت کی گئی تھی؛لیکن اصلاحِ احوالِ امت کےیہ بڑےمراکز اپنےمقصد،محور سےدور ہوچکے ہیں،اوربعض مقامات پر یہی مراکز خرافات و بدعات کی آماجگاہ بن چکےہیں جونہایت تشویش ناک ہے۔
اعراس میں خواتین کی آمدورفت باعث فتنہ وخرافات ہیں،بلکہ بعض مقامات کےعرس تو عورتوں کی آمدورفت اور ان کےسبب ہونےوالی برائیوں سےمشہور ہیں،منچلےاوباش قسم کے نوجوانوں کی عرسوں میں کشش عورتوں کےسبب ہوتی ہے،وہ بڑی شدت سےمقامی عرسوں کا انتظار کرتےہیں تاکہ انھیں اپنے بےلگام نفس کی تسکین کاسامان مل جائے۔
عرس ایک مقدس و پاکیزہ تقریب ہے،اہل خانقاہ و ارباب اعراس اس کی پاکیزگی کو پامال ہونےسےبچائیں۔ ویسےبھی موجودہ اعراس روحانیت اور تعمیرِ امت کی بجائےکھیل کود اور تفریح کاسامان مہیاکرتےہیں،حالانکہ عرسوں کےذریعےامت کو روحانیت اور صلاح و فلاح کےجام پلائےجانےچاہیے،لیکن معاملات اس کےبرعکس نظرآتےہیں،روحانیت کےعلاوہ تمام کام عرسوں میں انجام پذیر ہوتےہیں۔
امت مسلمہ کی کامیابی و کامرانی روحانیت اور مادیت کےحسین امتزاج کے بغیرممکن نہیں،امت کلی طور پر مادی اشیاء کےحصول میں کوشاں ومصروف ہیں لیکن روحانیت سےتہی دامن ہے،جس کی بنیادی وجہ اہل نظر و فکر اور اہل خانقاہ کا اس جانب سےصرف نظرکرناہے۔
تعمیرِ امت کےلیےلازم و ضروری ہےکہ پہلے فرد کی اصلاح کی جائے،اس لیےکہ معاشرےکی دیوار میں فرد سب سےپہلی اینٹ ہے،اور اسی اینٹ کو علمی،عملی اور فکری طورپر مضبوط و پختہ کیاجائے۔
انسان کی ایک صالح فرد کےطورپر تعمیر انبیائےکرام علیہم السلام کا کام تھا،اور ان کےبعد ان کےخلفاء اور وارثین بھی اسی ذمہ داری پر مامورہیں،اور جن صالحین کا عرس منایاجاتاہےان کی زندگی بھی تعمیر امت کےلیےکوششوں میں صرف ہوئی ہے۔
اس لیےاعراس کی تقریبات کااس انداز میں انتظام و انصرام کیاجائےکہ زائرین عرس کی روحانی،دینی اور علمی تشنگی کو دور کرکے فکری و عملی طورپر انھیں اسلام سےقریب کرکےتعمیر امت کےلیے کلیدی کردار ادا کیاجاسکے۔
اس کےلیےذیل میں اہل خانقاہ و دانشوران امت کےلیے چندتجاویز پیش خدمت ہیں،جس پر عمل کرکےاعراس کو مفید وکارآمد بنایاجاسکتاہے۔
۞ تقریبات عرس میں تین دن کےلیے(ایام عرس کےمطابق ) مخلتف اوقات میں مختلف تربیتی نشستوں کااہتمام کریں،جن میں ایک کیمپ مسائل ضروریہ جیسے نماز، پاکی، ناپاکی وضو، غسل،غسل میت ،تکفین و تجہیز کےضروری مسائل عملی طور پر سکھائےجائیں۔
۞ ایک کیمپ مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کےتعلق سے رکھاجائے،جس میں گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے،آپس میں خوشگوار تعلقات قائم کرنےنیز حقوق العباد کی اہمیت و حقوق ادا کرنےکی تعلیم و تربیت کی جائے۔
۞ ایک کیمپ آداب زندگی کے تعلق سے رکھاجائے،جس میں کھانےپینے،رہنےسہنے،بول چال،تجارت کےاسلامی و شرعی آداب سکھائےجائیں۔
۞ گناہوں سےاجتناب،گناہوں کی دنیوی و اخروی نحوست،گناہوں کی تباہ کاریاں،گناہوں کےسبب ہونےوالےنقصانات کےتعلق سے بھی ایک مجلس سجاکر گناہوں سےنفرت اور نیکیوں کا حریص بنایاجائے۔
۞ پابندیِ نماز کی تاکید کی جائے،دوران عرس اوقات نماز میں دکانیں اور دیگر امورمعطل کرکے نماز کاپابند بنایاجائے۔
۞ توحید و رسالت کےتعلق سے بنیادی معلومات فراہم کی جائے۔
۞ ایک شب تزکیہ نفس اور تطہیر قلب کےلیے خاص کرلی جائے،جس میں طریقہ بزرگاں کےمطابق کلمہ شریف اور اوراد کی ضربیں لگوائی جائیں،شجرہ کےآخر میں درج اوراد کی زبانی اجازت دیکر فلاحِ دارین کےلیے پابندی کی تاکید کی جائے۔
۞ عرس کےاسٹیج سے موجودہ حالات کےتناظر میں فکری وسنجیدہ بیانات نشر کروائےجائیں،قبل از وقت عنوانات اور افراد کاانتخاب کرلیاجائے تاکہ یہ امر کارآمد ومفید ہو۔
۞ مسلمانوں کو پیش آمدہ مسائل و مستقبل کےلیے منصوبہ سازی کرنےکےتعلق سےکسی ایک حساس موضوع پر ایک روزہ سیمینار منعقد کیاجائے،جس میں ملک کےطول عرض کے ماہرین علم و فن،اصحاب قلم و قرطاس سےمقالات تحریرکرواکر تلخیص بیان کی جائے،نیز آخر میں تمام مندوبین سرجوڑ کربیٹھیں اور موجودہ حالات کےتعلق سے کسی ایک نکتہ پر جمع ہوکر اسےعام کریں نیز عمل کی اپیل کریں۔
۞ بہتر یہ ہےکہ عرس کےموقع پر خواتین کی آمدورفت نہ ہو، لیکن اگر آمدورفت ہوتی ہے تو ان کےلیے علاحدہ انتظام کیاجائےاور ان کےلیے بھی کچھ تربیتی نشستیں مختص کی جائیں تاکہ وہ بھی دینی و علمی حوالےسےتربیت یافتہ ہوجائے۔
۞ لنگر کھلاتےوقت کھانےکےآداب بتاتےہوئےکھانےکےاول و آخر کی دعائیں پڑھانےکااہتمام بھی کیاجاسکتاہے۔
۞ جس علاقے یا شہر میں عرس ہے،اس علاقےمیں جگہ جگہ چوراہوں پر، خانقاہ کی درودیواروں پر تعلیمات اسلام عام کرنے،زائرین کو بہترین پیغام دینے،صاحب عرس کی تعلیمات کو عام کرنےاہل وطن وشہر کو اسلام کےتعلق سےمثبت پیغام دینےکےلیے مختصرقرآنی آیات و احادیث نبوی ﷺ کے آسان و سادہ مفاہیم کےبینر بنواکر آویزاں کیےجائیں۔
۞مذکورہ امور کی انجام دہی کےلیے ایک اچھی خاصی ٹیم کی ضرورت درکار ہوگی جس کےلیے اگر ادارہ ہوتو ادارےکےطلبہ کو پہلےسےتیارکرلیاجائے،علاوہ ازیں خانقاہ سے وابستہ علماء و پڑھےلکھےافراد کارآمد ہوسکتےہیں۔
مذکورہ تجاویز و امور کو بروئےکار لاکر اعراس کو امت کےحق میں مفید سے مفید تر بناسکتےہیں۔نظام خانقاہی وعرس کا بنیادی مقصدبھی یہی ہےکہ یہ تقاریب تعمیرِ امت کےلیے نفع بخش اور مفید ہوں تاکہ صاحب عرس کی روح کو بھی بہترین خراج عقیدت پیش کیا جا سکے۔
ممکن ہےکہ ذہن کے کسی کونےسےیہ سوال برآمد ہو کہ دو تین دن کی تربیت کیاانقلاب لاسکتی ہے؟جوابا عرض ہےکہ مذکورہ تمام امور اور تربیتی مراحل کےذریعہ ان کےذہن و فکر کو اس رخ پر موڑنااور ان کےدلوں میں فکروعمل کی کاشت کرناہےتاکہ سال بھرتک عوام کےذہنوں پر خوشگوار اثرات مرتب رہیں،اور ان کےلیےیہ کام رول ماڈل بن سکےتاکہ اس طرح کےکام کرکےوہ بھی تعمیرامت میں اپناحصہ ڈال سکے۔
14 دسمبر 2021ء