یوم آزادی و یوم جمہوریہ

یوم جمہوریہ: مسلمانوں کا ملکی قانون پر اعتماد و بھروسہ

‎ازقلم: فیاض احمدبرکاتی مصباحی
جنرل سکریٹری ٹیچرس ایسوسی ایشن
مدارس عربیہ بلرامپور (یو،پی)

‎کسی بھی ملک ، شہر ، گاؤں  یا کوئی گھر اجتماعی طور پر اسی وقت ترقی کی شاہ راہوں پر تیز گامی سے اپنے قدم چلاتا ہے جب وہاں رہنے ، بسنے اور زندگی گزارنے والے ہر طرح کے لوگ ایثار وقربانی ، بھائی چارگی ، اخوت ومحبت ، میل ملاپ اور سماج ومعاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ گہرے یقین کے ساتھ زندگی گزارنے کے پابند ہوں ۔ اگر کسی سماج میں کوئی سماجی قانون ہے تو اس کی پیروی کرنا اور اس قانون کا احترام کرنا ہر شخص پر ضروری ہے جو اپنے سماج اور معاشرے کا وقار بلند رکھنا چاہتا ہو ، اگر چند لوگ ہی اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کریں اور چند دگر قانون کے اپنے پیروں تلے روند ڈالیں تو یہ کسی بھی معاشرے کی عفت وعصمت کا جبریہ قتل تصور کیاجاتا ہے اور ایسے ظالموں کو وقت خود بہتر سزا سناتا ہے ۔  قانون کی حکم رانی کے لیے سب سے پہلا فریضہ ہے کہ قانون کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں کرایا جائے ، قوانین کے فوائد سے ہر فرد کو آگاہ کیا جائے ۔ قانون شکنی کے وقتی اور نسلی نقصانات پر عوام کے سامنے اچھی معلومات بہم پہونچائی جائے ۔ جیسے قتل ایک جرم ہے اس کے نقصانات یہ ہیں کہ ” ایک اچھا خاصا جیتا جاگتا انسان کسی دوسرے انسان کے غصے ، کینے ، لالچ کا شکار ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے نتیجے میں ایک پرسکون خاندان کا سکون چھن جاتا ہے ۔ بعض مواقع پر چھوٹے چھوٹے بچے یتیم وبے سہارا ہوجاتے ہیں ۔ بہنیں بے بس وںے کس ہوجاتی ہیں ، ماؤں کی آنکھیں بے نور ہوجاتی ہیں ، باپ کے بوڑھاپے کا سہارا چھین جاتا ہے ۔ اگر اس پر قانونی روک تھام نہ کی جائے تو مقتول کے خاندان سے بھی کوئی اٹھ کر قاتل کا قتل کرسکتا ہے اور پھر اس طرح ایک نہ تھمنے والا سلسلہ چل پڑے گا جس کی لپیٹ میں پورا معاشرہ آسکتا ہے ۔ اسی طرح دوسرے جرائم بھی ہیں اگر قانون کی مدد نہ کی جائے یا قوانین بالائے طاق رکھ دئے جائیں تو انسانی آبادی  جنگل سے بھی زیادہ بدتر ہو جائے گی ۔ پھر الگ حالتوں میں جرائم کی کیفیت بھی الگ الگ ہوتی ہے یعنی جرم ایک ہوگا لیکن حالت اور جگہ کو دیکھتے ہوئے اس کی سنگینی کی کیفیت بھی الگ الگ ہوگی اسی لیے مواقع اور محل کے حساب سے قوانین بھی مختلف ہونگے ۔ کہیں قانون بہت آسان ہوگا تو کہیں بہت سخت ہوگا ۔ کچھ ایسے بھی کام ہونگے جو عام حالات میں جرم نہیں ہونگے لیکن موقع و محل کے حساب سے اسے جرم قرار دیاجائے گا ۔ سارے قوانین انسانی بھلائی کے لیے بنائے جاتے ہیں ۔ 

‎یہ تو عام سماج اور معاشرے میں جینے کے طریقے طے کرنے والے اصول ہوئے ۔ یہی معاشرہ جتنا بڑا ہوگا قانون بھی اسی قدر پیچیدہ اور اہمیت کا حامل ہوگا۔ چھوٹے علاقے اور غیر منظم معاشرے میں یہی قوانین کبھی کبھی رسوم کی شکل اختیار کرکے اپنی اصل شکل بگاڑ لیتے ہیں جنہیں فرسودہ رسوم کہا جاتا ہے ۔ لیکن منظم اور پڑھے لکھے افراد جب کسی بڑے ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں تو تو وہ قانون کی ہر شق کو تحریری شکل دے دیتے ہیں ۔ قوانین میں آئے دن تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں جو ارباب قانون کے ہی دماغ کی اپج ہوتی ہے ۔ اصل قوانین کو اساسی قانون کی حیثیت حاصل ہوتی یا دوسرے لفظوں میں ہر دستور میں کچھ نکات ہوتے جنہیں ام القانون کی اہمیت دی جاتی ہے ۔ افراد ، خاندان ، مذہب ، تعلیم ، تقافت ، تہذیب ، رہن سہن ،  عمر اور عقل کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسلامی اسکالرز نے قوانین کے تمام شقوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ، جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے ۔  

‎آج کی نشست میں ہندوستان میں موجود قانون ، اس کی تاریخی حیثیت اور قانون کے ساتھ ہندوستانی مسلمان کی وفاداریوں پر آزادانہ گفتگو کی کوشش ہوگی ۔  ہندستان میں انگریزوں کی آمد سے قبل ملک کے مختلف علاقوں میں الگ الگ خاندان کے لوگوں کی حکومتیں تھیں جہاں قانون کی حیثیت حکمران طبقے کے زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو حاصل ہوتی تھی ، یہ طبقہ جب چاہتا جس قانون کو منسوخ کردیتا اور نیا قانون کا فرمان جاری کردیا کرتا تھا ، ان کی زبان سے نکلنے والا لفظ قانون کی شکل اختیار کر جاتا تھا وہ بھی اس طور پر قانون بنانے والا شخص خود اپنے خاندان ، دوست ، احباب ، رشتہ دار اور چھوٹے موٹے چمچے سب قانون سے بالاتر سمجھے جاتے تھے ۔پورے ملک میں کبھی بھی ایک قانون کا نفاذ نہیں ہوا تھا ۔ زمین دار، نواب ، راجا ، مہا راجا اور بادشاہ سب کے اپنے اپنے دائرہ اختیار کے اپنے تراشیدہ قوانین تھے جس کے نفاذ کے لیے اپنی ظالمانہ قوت کا استعمال عام رعایا پر کیا جاتا تھا ۔ یہ بھی اس ملک کی بڑی بدنصیبی تھی کہ سات سمندر پار کے تاجر یہاں کے حکم راں بننے میں کامیاب ہوگئے ۔ یہ راز آج تک راز ہی ہے ایسا کیوں کر ممکن ہوا ؟ سات سمندر پار کے تاجروں کو حوصلہ ، اسلحہ اور  افراد کس نے دیئے ؟ ۔  یہاں کے داؤ بیچ کے گر کس نے سکھائے اور کس نے درپردہ ملک کی مضبوط سلطنت کی بیخ کنی میں نمک حرامی کے فرائض انجام دئیے ۔  انگریزوں نے بھی اس ملک میں خوب من مانی کی اور
‎وہ قوانین وضع کیے جو خالص ہندوستانیوں کے لیے تھے اور انگریز ان قوانین سے مستثنی رکھے جاتے تھے ۔ ظلم کی چکی چلتی رہی اس میں ہندوستان کے غریب ، مزدور ، پریشان حال پسے جاتے رہے ۔ بالآخر اس ظلم کا بھی خاتمہ اور 15/ اگست ، 1947/ ملک آزاد ہوگیا ۔ 
‎آزاد ملک کو چلانے کے لیے قانون کی ضروت پڑی اور قانون بنانے کے لیے ایک سات رکنی ٹیم بنائی گئی جس کی صدارت کی ذمہ داری ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو دی گئی ، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے دوسال گیارہ ماہ اور اٹھارہ دن میں قانون بناکر اسمبلی کے سامنے پیش کردیا ۔ دستور ساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے قانون کی مختلف شقوں پر گرماگرم بحثیں ہوئیں ، کچھ جزوی تبدیلی کے ساتھ 26/ نومبر , 1949 / کو یہ قانونی مسودہ قبول کرلیا گیا  اور 26 ، جنوری ، 1950/ میں ایک مختصر اجلاس کے بعد تمام ارکان نئے قانون کے نفاذ پر دستخط کر دیئے ۔ البتہ ایک درویش صفت مرد مولانا حسرت موہانی مخالفت کرتے ہوئے دستور کے ڈرافٹ پر ایک مختصر نوٹ لکھا کہ ” یہ دستور برطانوی دستور کا اجرا توسیع ہے ، جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزاد ہندوستان کا مقصد پورا نہیں ہوتا ”  ۔ مولانا موہانی کا تاریخی جملہ ، ہمارے ملک کے دستور کی ماخذی حیثیت اور طریقہ کار یہ سب مستقل موضوعات ہیں جن پر ماہرین نے بہت لکھا ہے اور لکھتے رہیں گے لیکن سر دست ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اپنے ملک کے دستور پر ہندوستان کے مسلمانوں نے کتنا بھروسہ کیا ؟

‎ملک آزاد ہوا ، قانون کا مسودہ تیار ہوا ، بحثیں ہوئیں ، قانون کا نفاذ عمل میں آیا اور آج تک ملک قوانین ودستور کے سہارے ترقی کی شاہ راہیں طے کررہا ہے ۔ ملکی قوانین پر سب سے زیادہ اعتماد عام لوگوں نے کیا اور بحیثیت کمیونیٹی مسلمانوں نے تو اعتماد ویقین کا حق ادا کردیا ۔ بھارت کے مسلمانوں نے اپنا ہر معاملہ ملکی قانون کے سپرد کیا حتی کہ انگریزوں کی سازش سے ملک میں جو فسادات برپا ہونا شروع ہوئےتھے اور آج تک کسی نہ کسی سازش کے نتیجے میں فسادات ہوتے رہتے ہیں ، ان فسادات بھی  میں سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان اب تک مسلمانوں کا ہی ہوا ہے ۔ صدیوں سے مسلمانوں کی عبادت گاہ بنی رہی بابری مسجد  کی ملکیت ، تعبدی تقدس اور جذباتی لگاؤکو بھی مسلمانوں نے ملکی قانون کے سامنے دفن کردیا اور ملک کا قانونی وقار دنیا کے سر بلند کرنے کے لیے اپنی عبادت گاہ کی قربانی پیش کردی اور اف تک نہ کیا ۔  اگر بات فسادات کی کریں اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی بات کریں تو اس معاملے میں بھی  مسلمانوں نے صبر کا دامن مضبوطی سے تھاما اور ملکی قانون پر مکمل اعتماد ویقین کا اظہار کیا ۔ کچھ معاملات میں تو ظالم و مظلوم کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد انصاف کی دیوی نے لب کشائی کی اور قانون کے مضبوط شکنجے کو ظاہر ہونے کا موقع دیا ۔ قانون کی کالابازاری کرنے والے اور قانون کو بے حیثیت کرنے والے افراد کی بھی اس ملک میں کمی نہیں ہے لیکن مسلمانوں کے نزدیک قانون کو ایک مقدس مقام حاصل ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب مسلمان اپنے خانگی ، مذہبی اور مسلکی معاملات تک کا فیصلہ ملکی عدالت سے کرانے کے لیے رجوع کرنے لگے ہیں ۔ آزادی کے بعد بھارت میں ہونے والے فسادات اور جیلوں میں بند مسلمانوں کا ایک سرسری جائزہ لے لیتے ہیں تاکہ بات زیادہ واضح ہوجائے ۔ 

‎فسادات کی تاریخ اور مظلوم مسلمان ۔

‎ہم آزاد ہندوستان میں ہونے والے فسادات کا ایک تاریخی جائزہ پیش کرتے ہیں ۔ 1948/ میں ریاست دکن حیدرآباد کی تحلیل کے نتیجے میں فسادات برپا ہوئے جس میں 27/ ہزار سے چالیس ہزار کے قریب مسلمان شہید ہوئے ، تباہی اتنی شدید تھی کہ بعض خاندان سرے سے ناپید ہوگئے ۔ لوٹ اور آتش زنی سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ۔1969/ گجرات میں فساد ہوا جس میں 430 / مسلمان مارے گئے اور لگ بھگ ساٹھ ہزار لوٹ اور آتش زنی کے شکار ہوئے ۔ 1976 / دہلی میں دہلی پولس کے ہاتھوں 150/ مسلمان شہید ہوئے ۔ 31/ جنوری ، 1979 / مغربی بنگال میں فسادات برپا ہوئے جس میں ایک ہزار کے قریب مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ 1980/ مرادآباد میں فساد بھڑک اٹھا نتیجے میں 2500/ سو مسلمانوں کی جانیں گئیں ، 18/ فروری ، 1983/ آسام میں فساد ہوا اس فساد میں 2191 / مسلمانوں کی جانیں مفت میں ضائع ہوئیں ، ۔ 22/ مئی ، 1987/ میرٹھ فساد میں کم سے کم 42/ مسلمان مارے گئے ، ہاشم پورہ کیس میرٹھ ہی کا ہے جس کی خونچکاں داستان سے آج بھی کلیجے دہل جاتے ہیں ۔ ان بیالیس بے گناہوں کا قتل کرنے والے خود کو قانون کا رکھوالا کہتے رہے ہیں ۔ 1989/ بھاگل پور کا فساد جس میں کم سے کم 900/ مسلمانوں کی شہادت ہوئی ، لوٹ آتش زنی ، زنا بالجبر اور بے گھر کیے جانے کی داستان کسی پرانے بھاگل پوری مسلمان سے معلوم کریں ۔ لاکھوں کی ابادی جو بے گھر ہوئ تھی آج تک سنبھالا نہیں لے سکی ۔  20/ اکتوبر ، 1990 ، ایودھیا فساد ، اس میں 200/ سو مسلمان مارے گئے تھے ۔ 1992-93/ کا ملکی فساد ، جو بابری مسجد کی شہادت کے بعد
‎ملکی پیمانے پر پھوٹ پڑا تھا ، اس فساد میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئ تھیں اور کروڑوں کی جائیدادیں تباہ ہوئیں تھیں ، 1992_93/ کا فساد ممبئی میں رونما ہوا جس میں 575/ مسلمان مارے گئے تھے ۔ 6/ جنوری 1993/ کشمیر میں ہونے والے فساد میں 55/ مسلمان کی موت ہوئ تھی ، 22/ اکتوبر 1993 /  یہ فساد بھی کشمیر بھڑکا تھا اور اس میں بھی 55 ، مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا تھا ۔ 28/ فروری 2002/ گجرات احمد آباد کا مشہور خونی نسل کش فساد ، اس میں 2044/ مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ، اسی فساد کی لپیٹ میں نرودہ بھی آیا تھا اور وہاں بھی 97 / مسلمان کی موت ہوئ تھی ۔ 25/ اگست سے 17/ ستمبر 2013/ مظفر نگر فساد جس میں کم سے کم 42 / مسلمانوں کی جان گئی تھی ، یہ وہ تعداد ہے جو اخبارات ورسائل اور ٹیلی ویژن کے ذریعے دنیا کے سامنے آئے حقیقی تعداد کا علم اللہ ہی جانتا ہے ۔  خاص بات یہ ہے کہ ان تما معاملات میں ملک کے مسلمانوں کے قانون پر بھروسہ کیا اور عدالت سے انصاف کی فریاد کی ۔ہاشم پورہ ، بھاگل پور ، گجرات وغیرہ  جیسے معاملات میں عدالت نے فیصلے بھی سنائے اور کچھ معاملے ابھی عدالت میں ہیں ۔ ایک سچائ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے قانون وعدالت پر بھروسہ تو خوب کیا لیکن قانون سیکھنے ، سمجھنے اور ناجائز طریقے سے قانون کے نام پر پھنسائے جانے کے طریقے سے نابلد رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کی جیلوں میں مسلمان ہی اپنی آبادی کے تناسب میں سب سے بڑی تعداد میں بند ہیں ۔ ان میں سےاکثربے گناہ ہیں ، سیکڑوں معمولی مچلکہ نہ بھرپانے کی وجہ سے ہیں ۔ اس وقت ملک کے مختلف صوبوں میں انڈر ٹرائل اور جیل میں بند مسلمانوں کا فیصد 31/ فیصد یا اس سے کم کچھ یا کچھ زیادہ ہے ۔ دہلی میں 22/ فیصد ، یوپی میں 31/ فیصد ، بہار میں 18/ فیصد ، بنگال میں 27/ فیصد ، کیرالا میں انڈر ٹرائل 26 / فیصد ہیں ۔  ان میں بہت سے مسلمان بے گناہ ہونگے ، بہت سے ایسے ہونگے جن کے پاس مقدمہ لڑنے کی فیس ادا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی ۔ ہزاروں تعلیم یافتہ جوان بھی ہیں جو اپنی حماقت کی وجہ سے سزا کاٹ رہے ہیں ۔ آج ہمیں یہ بھی طے کرنا چاہیے کہ یوم جمہوریہ کے موقع پر ایسے افراد کی قانونی مدد کریں جو واقعی مدد کے مستحق ہیں ۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے