سیاست و حالات حاضرہ

ہم خوش فہمی میں ہیں کہ یہ تنظیمیں ہماری ہیں

تنظیم و تحریک کے بجائے انسٹی ٹیوشن و ادارے بنائیں

ازقلم: نورالدین ازہری

کسی بھی تنظیم و تحریک اور انسٹی ٹیوشن و ادارہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر کے دونوں چیزیں محض کچھ نظام جدو جہد اور گول مول خاکے ہیں کسی واضح اور مکمل انسٹی ٹیوشن و ادارہ بننے کے، جس میں کثیر محنت و استعداد اور وقت و سرمایہ کے ساتھ مستحکم نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے، اور جب تک کوئی تنظیم و تحریک انسٹی ٹیوشن نہیں بن پاتی ہیں، وہ کسی بھی وقت فنا ہوسکتی ہیں یا کم از کم ناکارہ اور خدا بھروسے ہو سکتی ہیں،اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں انسٹی ٹیوشن کا تصور ہو، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ مضبوط بنیادوں پر قائم کوئی بھی تنظیمی و تحریکی اور سماجی و سیاسی یا علمی ڈھانچہ، جہاں کچھ مطلوبہ تقاضوں کے مطابق بیسٹ ٹائلنٹ اور ماہرین فیلٹرڈ ہوکر خود اس میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور اپنے عظیم الشان ذہانت و فطانت اور غیرمعمولی تجربات سے اس میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور یوں وہ ڈھانچہ لیاقت اور اصولوں پر چلتا ہے، نہ وہاں شخصی اجارہ داری ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی موروثی سیاست، سب کچھ مرتب فیڈرل نظام پر گامزن ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں عموما تنظیم و تحریک اور مدارس و مکاتب کا حال یہ ہے کہ وہاں کچھ بھی سو فیصد منظم،مستحکم اور سسٹمیٹک نہیں ہے، جہاں ان میں جدید تقاضوں اور معیارات کا فقدان ہے، وہیں بیسٹ ٹائلنٹ اور تجربات کی ناقدری پائی جاتی ہے،اور رہی بات ان کے انتظامیہ کی تو الا ماشاءاللہ وہاں نہ کوئی مشاورتی نظام ہے اور نہ ہی کوئی مجلس شوریٰ۔ ایک طرح کی اجارہ داری قائم ہے اور وہ اجارہ داری پشت در پشت جاری رہتی ہے۔ کسی نے درست کہا تھا کہ ہم غلط فہمی میں جی رہے ہیں کہ ندوہ، دیوبند، جمعیت، امارت شرعیہ، پرسنل لاء بورڈ اور اس طرح کے تمام ادارے اور تنظیمیں مسلمانوں کے ہیں، ہرگز ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ چند مخصوص مسلم برہمنوں، اور مٹھادھیشوں کی موروثی جاگیر ہیں، یہ اپنے موروثی کرپشن، مالی خرد برد، اور انتظامی بددیانتی کے سبب ڈرے اور سہمے ہوئے لوگ ہیں،مدتوں پہلے یہ ادارے اور تنظیمیں مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں، انکا وجود ملت کے لئے ناسور اور نحوست ہے، یہ جب تک باقی ہیں، مسلمانوں کی اجتماعی خوش فہمی، اور ملی دلالوں کی دلالی چلتی رہے گی،
ان موروثی مفادات کے حامل اداروں اور تنظیموں سے اسلام اور مسلمانوں کے موقف و مفادات کے تحفظ کی امید محض خود فریبی ہے جس میں بہت سے خوش فہم شیخ چلی ابھی بھی جی رہے ہیں۔(منقول)
ہماری لیڈرشپ کو ان باتوں پر غوروفکر کرنا چاہیے اور ساتھ ہی نسل نو کو چاہیے کہ وہ اپنے رسائی کے مطابق ہر سسٹم کو اپگریڈ اور اسے خودکار مشینری اور منظم انسٹی ٹیوشن بنانے پر زور دیں۔ اور اس حوالے سے عوام و خواص کے اندر بیداری مہم چلائیں اور تنظیمی تحریک شروع کریں، کیوں کہ یہی ہمارے اداروں کے ساتھ خود منتظمین ادارہ کے حق میں بہتر ہے اور یہی ہماری ملت اور ہمارے سماج کے لیے مناسب ہے۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے