تحریر: محمد ہاشم قادری مصباحی جمشیدپور
ووٹ ڈالنا ایک اہم فریضہ ہے کئی صوبوں کے الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے جسے ہم جشن جمہوریہ کہتے ہیں ہمارے ملک ہندوستان میں عام انتخابات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
عام انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے بعد انتخابی مہم زور پکڑتی ہے اور قائدین اور عوام انتخابی جلسوں میں ایک دوسرے کے روبروہوتے ہیں۔ پارٹی قائدین یہ بتاتے ہیں کہ بحیثیت عوامی نمائندہ، وہ عوام کے لئے ان کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے، ہمہ جہتی ترقی کے لئے کس طرح کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
ہرووٹ کی اہمیت مسلم ہے ہر رائے دہندوں کی جانب سے حقِ رائے دہی سے استفادہ کرنے سے قبل اپنی پسند کے امیدوار کو چننے کا بھر پور موقع ملتا ہے۔ جمہوریت میں ووٹر ایک اہم مقام رکھتاہے اور ہر ووٹ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ 1951ء میں نافذ ہونے والے قانون کے مطابق حق رائے دہی سے فائدہ کی عمر 21؍سال تھی جو بعد میں 1988ء میں 18؍سال مقرر کر دی گئی۔ ہر وہ فرد جس کی عمر 18؍سال ہوجائے اس کو چاہئے کہ وہ بحیثیت ووٹر(رائے دہندہ) اپنے نام کا اندراج کرائے اور انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرے۔
آزاد ہندوستان میں کئی مرتبہ انتخابات کے موقع پر جو ووٹ ڈالنے بوتھ پر گئے یا جو نہیں بھی گئے، جو فاتح بن کر ابھرے یا جنھوں نے شکست کھائی سبھی نے یعنی جیتنے والے، ہارنے والے نے ووٹ ڈالنے کے حق کو ہمیشہ ایک فریضہ کے طور پر دیکھا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ چل پڑتاہے۔
اور تنگ نظر ی، فرقہ پرستی کی بھی کچھ مثالیں دی جا سکتی ہیں (جو اب بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے) لیکن ہماری وسیع قومی یکجہتی، ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ، بلا لحاظ مذہب، ر نگ و نسل، ہمارا جذبہ اخوت اس پرغالب ہے۔ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ہار کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیا جاتاہے اور عوام کے فیصلہ کو ماننا ضروری ہوتاہے۔
لوک سبھا اوراسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کی تمام تر ذمہ داری، ہدایت، کنٹرول، طریقہ کا ر وغیرہ کی صورت میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کے متعین قانون کے مطابق کوئی بھی شہری ایک سے زائد حلقوں میں اپنا نام اندراج بطور رائے دہندہ نہیں کرا سکتا۔
ایسی صورت میں الیکشن کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس طرح کے ناموں کو کاٹ دے۔ انتخابات میں کرپشن کو روکنا الیکشن کمیشن کی ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ انتخابات کے آزادانہ اور شفاف انعقاد کے لئے عوام کوبھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے اور انھیں بھی تعاون دینا ہوتا ہے۔
سیاست میں داخل ہونے والے افراد کی فطرت بھی اقتصادی ترقی کی رفتار کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ کی حصولی ہر نظر کے ساتھ انتخابات میں مقابلہ کرنے والے امید واروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔سیاسی طاقت وقوت حاصل کرنے کے لئے، وہ ووٹر کوایک قیمت دینے میں پس و پیش نہیں کررہے ہیں۔
ووٹ ڈالنا انتہائی ضروری ہے
امیدوار کھلے عام یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ایک اسمبلی سیٹ کے لئے ایک کروڑ، لوک سبھا سیٹ کے لئے دس کروڑ سے زائد انتخابی خرچہ آتا ہے۔ اور روز بروز اس پر خرچ بڑھتا ہی جارہاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امیدوار ووٹوں کی خریدداری پر محض مہم سے زیادہ خرچ کررہے ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق، امیدواروں نے گزشتہ انتخابات کے دوران ایک ووٹ کے 500؍سو تا ایک ہزار روپیوں کی ادائیگی کی تھی۔
جب ایک امیدوار ووٹ کو خریدنے کی پیشکش کرتاہے اور ووٹر اس کو قبول کرنے پر آمادہ ہوجاتاہے تو کیا ووٹ کے اس تقدس یا قیمت کی بات کی جاسکتی ہے۔ایک ووٹ کے لئے جو بھی قیمت پیش کی جاتی ہے کیایہی اس کی قیمت ہے۔ کنڈیڈیٹ ووٹ کی خریدداری کے لئے بھاری رقومات خرچ کررہے ہیں۔ کیا کوئی بدلے میں کسی چیز کی امید کئے بنا روپیہ خرچ کرتاہے۔ (ظاہر ہے نہ میں جواب ہوگا)انتخابی امیدوار ووٹ کی خریدداری پر بھاری رقمیں اس لئے خرچ کررہے ہیں کہ وہ ہر حال میں جیت کر وہ سیاسی قوت و طاقت حاصل کریں جس سے سیاست میں مشغول ہوکر خرچ کردہ روپیہ سے کہیں زیادہ کمائیں اور اپنی تجوریوں کو بھریں۔ ہم دال،نمک، تیل، بس ٹکٹ، ریل ٹکٹ وغیرہ خریدتے وقت اور دوسری چیزیں خریدتے وقت ٹیکس ادا کرتے ہیں تاکہ ریاستی اور مرکزی حکومت ٹیکسوں کی آمدنی سے ترقی کریں۔
اگر ہم ووٹ ڈالنے کے لئے روپئے قبول کرتے ہیں تو ہم اپنا مستقبل رہن(گروی) رکھ دیتے ہیں۔
جمہوریت میں ووٹ کی طاقت
جمہوریت میں ووٹ ایک مقدس حیثیت ہی نہیں رکھتا بلکہ ایک زبردست طاقت بھی رکھتا ہے۔ 1994ء میں صرف 17؍ووٹوں کی اکثریت سے گجرات میں وڈورا سے لوک سبھا کے لئے ایک نوجوان نے جیت حاصل کی اور اسی طرح 1989ء میں بھی صرف 9؍ووٹوں سے کنڈیڈیٹ کو آندھرا پردیش میں انکا پلی سے لوک سبھا کے لئے منتخب کیا گیا۔ دہلی میں مشہور فلمی اداکار آنجہانی راجیش کھنہ سے مشہور بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے صرف52؍ووٹوں سے جیت حاصل کی تھی۔ ابھی ستمبر، اکتوبر 2014ء میں مہاراشٹر کے الیکشن میں 9؍مسلم امیدوار صرف ایک ہزار یا اس سے کم کے فاصلے سے ہار گئے اور بی جے پی کے14؍کنڈیڈیٹس نے صرف ساڑھے چارفیصد زیادہ ووٹ ملنے پر جیت حاصل کی۔
ووٹنگ کے دن کو پکنک ڈے(Picnic Day) نہ بنائیں اپنے ملک، اپنی ریاست کی بقا کے لئے ووٹنگ کے دن کویومِ جمہوریت کی طرح منائیں اور ایسے خواہشمندوں کے حق میں ووٹ ڈالیں جو دولت بٹورنے کی غرض سے نہیں بلکہ خدمات انجام دینے کے لئے آگے آتے ہیں۔
اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کریں اور انھیں کامیاب کرنے کی کوشش کریں ۔ ووٹ کا استعمال ہمارا سنجیدہ فریضہ ہے۔ بہ صورت دیگر ہم جمہوری نظام کی طاقت سے محروم ہوجائیں گے۔ دنیا بھر میں اگر کثرت میں وحدت کی شان کہیں دکھائی دیتی ہے تو وہ ہمارا ملک ہندوستان ہے۔ ہمارابھائی چارہ، ہماری رواداری، ہماری قومی یکجہتی ہمارا طرہ امتیاز ہے۔دعا ہے اسے کسی کی نظر نہ لگے۔ اس کی برقراری کے لئے ہندوستانی عوام جدوجہد کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
اور جمہوری نظام کے لئے ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہیں گے تاکہ ہر طرف امن وسکون کا بول بالاہو۔ بقول نیلسن منڈیلا’’ امن کا مطلب صرف لڑائی ختم ہوجانا نہیں ہے۔امن تب ہوتا ہے جب سب خوشحال ہوں، بھلے ہی وہ کسی بھی ذات، مذہب، ملک، جنس اور سماج کے ہوں ‘‘۔
ہم اس بات کی پرزور کوشش کریں کہ ووٹ ضرور ڈالیں اور ووٹ کا فیصد بڑھائیں۔ پورا کارپوریٹ جگت اس مہم میں لگا ہے اور کیوں لگا ہے یہ اہلِ شعور سے چھُپا نہیں ہے اور اس کا فائدہ کس کو مل رہا ہے آپ کے سامنے ہے۔
جمہوری ملک میں ’’ووٹ‘‘ ڈالنے کا دن عید کا دن ہے
جس طرح ہر قوم اپنے اپنے تہواروں میں خوشیاں مناتی ہیں اسی طرح ملک کے ہر باشندے کو جمہوریت کی اس خوشی میں شامل ہونا چاہیئے۔یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ اپنے اس حق کا استعمال اپنی مرضی و ہوش مندی سے کریں بغیر کسی ڈر و لالچ کے تاکہ حکومت بننے میں آپ کی حق رائے دہندگی شامل ہو جیسا کہ اوپر آپ پڑھ چکے ہیں کہ کتنے کم ووٹوں سے ہار جیت ہوئی ہے۔
ووٹ ڈالنا کیوں ضروری پڑھیں اور سمجھیں
اتر پردیش کے پچھلے اسمبلی کے الیکشن میں سماج وادی پارٹی کے 70 ایم۔ ایل۔اے 500؍ یا 1000 ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے اور 16؍ ایم۔ایل۔ اے5000؍ سے کم ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے (حوالہ نارائن دت ترپاٹھی سابق بی بی سی رپورٹر،پروگرام یوپی کا مہابھارت این۔ ڈی۔ ٹی۔ وی)۔
سیکولر (Secular)ووٹوں کی تقسیم، سخت گیر عناصر کی چاندی
الیکشن کا اعلان ہوتے ہی ان گنت پارٹیاں سامنے آجاتی ہیں اور سب کی سب غریبوں ومسلمانوں کی فلاح کادم بھرتی ہیں لیکن ایساہے نہیں ایسی پارٹیوں اور ضمیر فروشوں کو ووٹ بانٹنے کے لیے کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ جو سخت گیر تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان کا مقصد پورا ہوجائے۔
الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی سیاسی حرارت(Tempreture)ساتویں آسمان پر ہے غور کریں کہ اتر پردیش میں 22؍ سیٹوں پر مسلمانوں کی 20 فی صد سے زائد ووٹرس ہیں اور 60 سیٹوں پر 30 فی صد سے زائد ووٹرس ہیں ایک درجن سیٹوں پر تو ان کی آبادی 40 سے 52 فی صد تک ہے اس وقت اتر پردیش میں چھوٹی بڑی پارٹیوں کو ملاکر 100 ؍ سے زیادہ پارٹیاں سرگرم عمل ہیں ۔
جس میں سب اہم تین چار پارٹیاں ہی ہیں سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، کانگریس اور بی،جے، پی ہے۔بی۔جے۔پی تو کھلم کھلا ہندوؤں کے ووٹ کو ایک جٹ کرنے میں لگی ہوئی ہے اس کے لیے وہ کروڑوں روپے خرچ کر کے ریلیاں کرارہی ہے اور سوشل میڈیا(Social Media)جو اس زمانے کا سپریم پاور ہے اس کا استعمال زبردست طرح سے کر رہی ہے۔بی۔جے۔پی کے یوپی کے ہیڈ کوارٹر میں پور سیل بنا کر سیکڑوں کمپیوٹر اور ٹرینڈ لوگوں کی مدد سے نان اسٹاپ 24؍ گھنٹے کام کر رہی ہے۔
این۔ ڈی۔ ٹی۔ وی کے رپورٹر کمال خان کے مطابق 8000 ؍ سے زیادہ (Whatsapp Group, Twitter, Instagram, You Tube, Telegram) وغیرہ وغیرہ کے ذریعہ زبردست پرچار کر رہی ہے جس طرح اس پچھلے پارلیامینٹ الیکشن میں کیا تھا اس الیکشن میں اس سے زیادہ تیاری و طاقت سے لگی ہوئی ہے اور لاکھ کے قریب راشٹریہ سویم سیوکوں کو ڈور ٹو ڈور(Door to Door)کنوینسنگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ آپ کی باتیں جو مین اسٹریم میڈیا (Main Stream Media)میں جگہ نہیں پا سکتی ہیں اسے بڑی آسانی سے فیس بک، ٹیوٹر یا انسٹا گرام وغیرہ کے ذریعہ اپنے لوگوں تک اور پوری دنیا تک سیکنڈوں میں پہنچا سکتے ہیں ۔
ہماری ذمہ داری بنتی ہے تمام وہم و گمان کو دل سے نکال کر خوب سوچ سمجھ کر ووٹنگ ضرور کریں اور اپنا حق ووٹ کے ذریعہ لینے کی کوشش کریں۔
ووٹ ڈالنے والوں کی سخت آزمائش کا وقت
“صدائے دل” سچ یہ ہے کہ اس وقت ووٹ ڈالنے والوں کی سخت آزمائش کا ہے اور خاص طور پر ان انتخابات میں مسلمان ووٹروں کا اصل امتحان ہونا ہے-حالانکہ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ مسلمان ووٹر پہلے سے زیادہ ہوشیار ہو ئے ہیں اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کون سی پارٹی اور کون سا امید وارملک و ملت کے مستقبل کے لئے بہتر ثابت ہو گا، وہ بھی جانتے ہیں اور پہچاننے لگے ہیں کہ صرف انتخابات کے وقت نکلنے والے، برساتی “مینڈک ” کس طرح مسلمانوں کا سودا کر جاتے ہیں اور پوری قوم کو رسوا کر نے کا کام کرتے ہیں –
“سوچئے سوچئے خوب سوچئے ووٹ سمجھ کر ڈالیے” _
ووٹ ڈالنے کے وقت خاص دھیان دیں
۔(1)ووٹ ڈالنے میں احتیاط سے کام لیں
E. V. M. مشین میں احتیاط سے بٹن دبا ئیں، غلط بٹن نہ دبے اس کا خا ص خیال رکھیں ورنہ آپ کا ووٹ بیکار ہو جا ئے گا جو کہ بہت بڑا نقصان ہو گا،
۔(2) باہم مشورے سے خوب سوچ سمجھ کر ووٹ دیں، محض اپنے تعلقات، یاذاتی فائدہ کے لیے یا غیر شرعی دباؤ سے متاثر ہو کر ہرگز ہرگز ووٹ نہ دیں –
۔(3)جس امید وار یا پارٹی کے حالات یکساں ہوں تو پھر جس سے زیادہ فائدے کی امید، اور کم نقصان کا ڈر ہو اس کو ووٹ دیں،
۔(4) جس پارٹی اور امیدوار سے نقصان پہنچنے کا غالب اندیشہ ہو اس کو ووٹ نہ دیں –
۔(5) روپے یا کسی لالچ میں کچھ لیکر کسی کو ووٹ نہ دیں یہ بدترین رشوت قوم سے غداری اورحرام فعل ہے، آ ئے ہم اپنے ملک اور اپنی ریاست اور قوم کے لیے دعائیں کریں کہ ہر چار سو امن و امان ہو، ترقی ہو، ہر شہری کو اس کا حق ملے اور زندگی خوش حال ہو۔!۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین۔