نتیجہ فکر: فرید عالم اشرفی فریدی
عشق کی جام سے سیراب کرا دو مجھ کو
اے مری جاں رخِ زیبہ تو دکھا دو مجھ کو
قربتِ قلب صنم آج دلا دو مجھ کو
یعنی اب شربت دیدار پلا دو مجھ کو
پیار میں لغزشیں طرفین سے ہوتی ہیں مگر
یہ تو اچــھا نـہیں تم صرف پھنسا دو مجھ کو
عشق کرنا تو خطا ہے یہ خطا ہی ہمدم
درد سے چور ہوں آنچل کی ہوا دو مجھ کو
نام لکھ لکھ کے ہتھیلی پہ سجاتی کیوں ہو
میں اگر حرف غلط ہوں تو مٹادو مجھ کو
اس قدر بزم میں رسوا نہ کرو تم جاناں
عشق گر ہے نہیں مجھ سے تو بتا دو مجھ کو
یوں فریدی سے تو کرتی ہے دغا بازی کیوں
آ کے اک بار ذرا تم ہی بتا دو مجھ کو