ازقلم : طارق انور مصباحی
(1)اعلامیہ(1443-2021)کو دیکھ کر فرقہ بجنوریہ حرکت مذبوحی میں مبتلا ہے۔اب انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے مزعومات باطلہ کی بنیادیں مسمار ہونے والی ہیں۔نظریات باطلہ کا ستون سرنگوں ہونے والا ہے۔
فرقہ بجنوریہ حضرت فقیہ النفس دام ظلہ العالی کو ورغلانے کی کوشش میں مبتلا ہے,حالاں کہ اعلامیہ جاری کرنے سے پانچ روز قبل ہی اعلامیہ کا مسودہ ان کو ہم نے بھیج دیا تھا۔اعلامیہ جاری کرنے کا سبب بھی ہم نے بیان کر دیا تھا۔نیز دو سال کی مدت میں متعدد معروضات ہم نے بھیجی ہیں۔تفردات کے حل کی آخری صورت یہی نظر آئی کہ مخدوم گرامی اپنے ہم منصب اکابر اہل سنت و جماعت کی تصدیق وتائید پیش فرمائیں۔دلیل ہرگز پیش نہ کی جائے۔
ابھی چند دنوں قبل 18:اکتوبر 2021 کو جامعہ اشرفیہ مبارک پور اور خود حضرت فقیہ النفس کو کتھائی مجلس کے فیصلے پر نظر ثانی کے لئے مباحثاتی رسالہ بھیجا۔اس کا یہ مفہوم نہیں کہ ہم نے کسی پر شرعی حکم نافذ کر دیا,بلکہ اپنا موقف لکھ کر نظر ثانی کی گزارش کی ہے۔
قطعی مسائل میں اختلاف ناقابل قبول ہے۔مفتی ومحقق سے نظر ثانی کی گزارش ضرور کی جائے گی۔
(2)سال 2011 کے آخری مہینوں میں ہم نے حسام الحرمین کی تصدیق جدید کی منصوبہ سازی کی۔اس وقت فرقہ بجنوریہ کا وجود نہیں تھا۔بھارت میں طاہر القادری کے نظریات باطلہ کا بھی شہرہ نہیں تھا,نہ ہی اس وقت بھارت میں اس کی آمد ہوئی تھی۔باب عقائد کے تفردات کا علم بھی لوگوں کو نہیں تھا۔
حسام الحرمین کی تصدیق جدید کا سبب جنوبی ہند کے بعض اہل علم کے شکوک وشبہات تھے۔شمالی ہند سے اس کا خاص تعلق نہیں تھا۔
تصدیق جدید کے اجازت دہندگان میں خود حضرت فقیہ النفس بھی ہیں۔ان کی تصدیق بھی موجود ہے۔
(3)قریبا چھ سال بعد 1918میں فرقہ بجنوریہ کا وجود ہوا۔یہ لوگ سوشل میڈیا پر شور وشر پھیلانے لگے۔
(4)راقم السطور اپنے مصائب ومشکلات اور اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کے واسطے پیغمبر ملت بیضا خلیفہ کبریا حضور اقدس تاجدار کائنات علیہ التحیۃ والثنا کے دربار اقدس میں عرضیاں پیش کرتا رہتا تھا اور اللہ تعالی کے فضل واحسان اور حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی رحمت وعطا سے ہمارے معاملات حل ہوتے رہے ہیں۔واضح رہے کہ دربار اعظم میں گنہ گاروں کی عرضیاں بھی قبول ہوتی ہیں۔
فرقہ بجنوریہ کا شور وشر دیکھ سن کر ہم نے دربار اعظم میں عرضی پیش کر دی کہ یہ معاملہ مجھے سپرد فرمایا جائے۔
جب معاملہ ہمارے سپرد ہو گا تو افضل الخلائق بالاتفاق سید السادات علی الاطلاق حضور اقدس سیدنا وسندنا ومولانا محمد مصطفے علیہ التحیۃ والثنا ہماری دستگیری فرمائیں گے,اسی لئے خود سے میدان میں نہیں اترا۔
(5)حالات کو دیکھ کر اندازہ یہی ہوتا ہے کہ میری عرضی دربار اعظم میں قبول فرمائی گئی,اور یہ معاملہ میرے سپرد فرما دیا گیا-
واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
(6)عرضی کی قبولیت کی ایک نشانی یہ ہے کہ قریبا چار سال سے راقم الحروف میدان میں حاضر ہے۔علمائے حق بوقت ضرورت آتے ہیں,پھر اپنی مصروفیات میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
عرضی کی قبولیت کی دوسری نشانی یہ ہے کہ اسی موقع پر 07:فروری 2018 کو ہم نے بجنوری فتنوں کا ذکر استاذ عالی المراتب حضرت مصباحی صاحب قبلہ دام ظلہ الاقدس:ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے کیا۔
استاذ گرامی نے فرمایا کہ تم میری جانب سے ایک تحریر سوشل میڈیا پر جاری کر دو۔
میں مبارک پور سے قریبا تین ہزار کیلو میٹر دور بیٹھ کر جامعہ اشرفیہ کی جانب سے اعلامیہ جاری کر رہا تھا۔
اس اعلامیہ نے فرقہ بجنوریہ کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ جامعہ اشرفیہ ان کے آستانے پر آسن جما لے گا۔ہمارا جاری کردہ اعلامیہ بجنوریوں کو حواس باختہ کر دیا تھا۔
اعلامیہ(1443-2021)کسی کے حکم پر جاری نہیں کیا گیا ہے,بلکہ دربار اعظم میں ہم نے جو عرضی پیش کی تھی۔اس کے پیش نظر جاری کیا گیا۔حل مسائل مقصود ہے۔کسی پر شرعی حکم نافذ کرنا مقصود نہیں۔ہاں,تفردات باطلہ کے مفاسد کا بیان ضرور ہو گا۔
تفردات باطلہ کے سبب خلیل بجنوری پر اعتراض ہو چکا ہے۔
(7)ہماری تحریروں سے امت مسلمہ کو فائدہ ہوا یا نہیں۔اس کا فیصلہ امت مسلمہ کو کرنا ہے۔ہم نے جو عرضی پیش کی تھی۔اس پر ہم قائم ہیں۔یہ تو سب کی نظر میں ظاہر ہے۔
(8)جب فرقہ بجنوریہ نے رسالہ:اہل قبلہ کی تکفیر سے اپنے مقصد باطل کے اثبات کے لئے استدلال کیا,تب دو سال قبل03:اکتوبر 2019 کو ہم نے حضرت فقیہ النفس کی خدمت میں تحریری درخواست بھیجی۔
اس کے بعد بھی موقع بہ موقع رابطہ جاری رہا۔حل مسائل کی متعدد صورتیں ہم نے پیش کیں,لیکن اتفاق نہ ہو سکا۔
مباحثہ ومناظرہ سے یہ معاملہ حل ہونے والا نہیں۔یہ قطعی اعتقادیات کا مسئلہ ہے۔یہاں یہ دیکھنا ہے کہ سواد اعظم اہل سنت وجماعت کا کیا عقیدہ ہے؟
سواد اعظم جس عقیدہ پر قائم ہے,وہ سواد اعظم کا عقیدہ ہے۔
چند افراد کے مباحثہ سے یہ ظاہر نہیں ہو سکے گا کہ سواد اعظم کس عقیدہ کو مانتا ہے۔
سال 1320ھ میں اشخاص اربعہ وقادیانی وغیرہ کی تکفیر دلائل کی روشنی میں المعتمد المستند میں ہو چکی تھی۔
اس کے بعد 1323-1324 ھ میں علمائے حرمین طیبین نے اس کی تائید وتصدیق فرمائی۔ان تصدیقات کا مجموعہ حسام الحرمین ہے۔
1345-1344ھ میں برصغیر کے 268 علمائے کرام سے تصدیقات حاصل کی گئیں۔ان تصدیقات کا مجموعہ الصوارم الہندیہ ہے۔
تصدیق وتائید سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس امر میں علمائے حق کا کیا عقیدہ ہے۔مناظرہ ومباحثہ دیابنہ سے ہوتے رہتے تھے۔دلائل بھی پیش کئے جاتے تھے۔
ہم نے سواد اعظم اہل سنت وجماعت کی تصدیق وتائید کا مطالبہ کیا ہے,تاکہ ظاہر ہو سکے کہ علمائے حق کا عقیدہ کیا ہے۔
بعد وفات ہم گزارش نہیں کر سکتے,نیز خصوصی گزارش بار بار کی جا چکی ہے۔اب معاملہ ظاہر کیا گیا,تاکہ صاحب معاملہ کے ساتھ دیگر اصحاب علم وفضل بھی غور وفکر فرمائیں اور حق ظاہر ہو۔
(9)ہم تفردات پر اکابر اہل سنت کی تصدیق کا مطالبہ کرتے ہیں۔اگر وہی اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے تو لا محالہ اکابر اہل سنت اس کی تائید وتصدیق کریں گے۔
اصحاب تفردات تصدیق وتائید حاصل فرمائیں اور امت مسلمہ کو مطمئن کریں۔یہ ہماری ذمہ داری نہیں,بلکہ اصحاب تفردات کی ذمہ داری ہے۔
شور مچانے والے اصحاب تفردات کی عمر کو دیکھیں۔وہ اپنی عمر کی آخری منزل میں ہیں۔ہم زیادہ دنوں تک خاموش رہیں تو ہم مجرم ہوں گے۔امت مسلمہ کو بھی اطلاع کرنا ضروری ہے۔ہم ان کے خیر خواہ ہیں۔بد خواہ نہیں۔