اصلاح معاشرہ

اجتماعی کام !!!

از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327

بھارت میں اجتماع کا نام آتے ہی مسلمانوں کو دینی اعتبارسے ملنے والی کارروائی یاد آجاتی ہے۔ اس کے بعد مسلمان اگر اجتماعی طور پر کچھ کام کرتے ہیں تو وہ اجتماعی شادیاں اوراجتماعی ختنے ہیں۔ اس کے بعد اورکوئی فلاحی ورفاحی کام اجتماعی طور پر انجام نہیں دئے جاتے ۔حال ہی میں ایک رپورٹ سوشیل میڈیا پر بڑی تیزی کے ساتھ گردش کررہی ہے ۔ جس میں سچر کمیٹی کے سفارشات کے 14سال بعد مسلمانوں کی حالات پر رجت دتہ نامی محقیق نے ایک تحقیق کی جس میں انہوں نے پایا کہ بھارت کے ٹاپ میڈیا ہائوسس میں مسلمانوں کا ایک بھی فرد خدمات پر مامور نہیں ہے جس میں ٹائمس گروپ سے لیکر آئوٹ لُک تک شامل ہیں۔ اسی طرح سے بھارت کے ٹاپ میڈیکل انسٹی ٹیوشن کے گورننگ کائونسل میں محض 1 فرد مسلمانوں سے نمائندگی کررہا ہے۔ ان میں اے آئی آئی ایم ایس ، بی جے آئی چندی گڑھ، کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی، ایم سی آئی اورآئی سی ایم آر شامل ہیں۔ اس میں صرف آئی سی ایم آر میں اے مسلمان ٹاپ عہدے پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ بھارت کے دس معروف پرائیوٹ سروس یونٹس میں ایچ پی سی ایل ایک واحد ادارہ ہے جہاں پر ایک مسلمان خدمات انجام دے رہا ہے۔ اسی طرح سے بھارت کے عدلیہ کے نظام میں ایک بھی مسلمان سینئراڈوکیٹ نہیں ہے۔ جو اے جی، ایس جی یا پھر بار کونسل میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ بھارت کے سپریم کورٹ میں اس وقت صرف ایک مسلمان جسٹس کے عہدے پر فائز ہے۔ اسی طرح سے بھارت کے کسی بھی ریاست میں ڈی جی پی یا چیف سکریٹری کے عہدے پر ایک بھی مسلمان نہیں ہیں۔ اسی طرح سے ملک کی 5بڑی مسلم اکثریتی ریاستوں میں مسلمانوں کے ایم ایل اے، سب سے زیادہ آسام میں ہیں۔ جبکہ بہار میں صرف9.9فیصد اراکین اسمبلی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بھارت کی لوک سبھا میں سال 2009 سے 2014 تک 2.4فیصد اراکین پارلیمان تھے۔ جبکہ اب اس بار یہ شرح بڑھ کر 9.4ہوچکی ہے۔ اسی طرح سے بھارت کے تمام ٹی وی چینلز میں ایک بھی ایسا ٹی وی چینل نہیں ہے جو مسلمانوں کے ذریعہ چلایا جارہا ہو۔ اندازہ لگائےکہ اس وقت بھارت کے مسلمانوں کی اجتماعی حالت کیا ہے۔ جس ملک کے مسلمان اپنی انفرادی شناخت بھی نہیں بناسکے ان کے یہاں شادی بیاہ پر کروڑوں روپئے خرچ ہورہے ہیں، بغیر باپ کی بچیاں پوری شان اورریاکاری کے ساتھ ڈولیوں میں جارہی ہیں۔ سادی شادی کا نعرہ بلند کرنے والے لوگ اپنے بچوں کی شادیاں کلبوںاور فام ہائوس میں انجام دے رہے ہیں۔ ملک کے 40 فیصدسے زیادہ مسلمان آج بھی سلم ایریا یا جھونپڑیوں میں مقیم ہیں۔ اس قوم کے لوگ کروڑوں روپیوں کے شادی محل بنارہے ہیںاوراس میں شادیاں کرنے والے لاکھوں روپئے خرچ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اجتماعی شادیاں اور اجتماعی ختنے کرکے آخر کونسے دین کی مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔ انفرادی میں بھی پس پردہ جوڑے، گھوڑے لئے جارہے ہیں اوراجتماعی میں نکاح اجتماعی ہورہا ہے باقی سب لین دین اپنی اپنی خوشی کے مطابق اوربچی کی ضرورت کے مطابق کیا جارہا ہے۔ آخر بھارت کے مسلمان کب سونے کے ناٹک سے باہر نکلیں گے، اسکا اندازہ نہیں ہورہا ہے۔ ہرجگہ پر مسلمان ذلیل وخوار ہورہا ہے۔ مگر بھارت کے مسلمان اس ذلالت کے باوجود ریاکاری ، عیاشی اوردیکھاوے کو سر فہرست رکھا ہوا ہے۔ اگر اجتماعی شادیوں کے بجائےیا اجتماعی ختنوں کے بجائے مسلمان تعلیم کی طرف اپنے نو نہالوں کو لے جاتے ہیں تو خودبخود یہ بچے آگے چل کر اپنی شادیاں کرنے کے قابل ہوجائیںگے۔ کونسے وہ ماں باپ ہیں جن کے پاس اپنے بیس ،تیس ہزارروپئے زچگی کیلئے خرچ کئے ہوئے کو 5 یا 6 سوروپئے میں خرچ کرکے ختنہ کروانے کی استطاعت نہیں ہوتی، ہر ماہ موبائل کیلئے 1000 روپئے، کیبل کیلئے 500 خرچ کرنے والی قوم کیا اپنے بچوں کی 500 روپئے کے ختنہ کا خرچ نہیں اٹھاسکتی۔ چھوڑئے یہ روایتی اوردقیانوسی خدمت خلق کی روایتیں ،آئے اپنی نسلوں کو تعلیم یافتہ بنائیں، بے روزگاروں کو روزگارفراہم کریں، سوداور فینانس کمپنیوں سے قوم کو چھٹکارہ دلوائیں پھر اسکے بعد نہ اجتماعی شادیوں کی ضرورت پڑےگی نہ ہی اجتماعی ختنوں کی ضرورت ہوگی۔ قوم خود بخودانفرادی طور پر ان کاموں کو انجام دیگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے