مذہبی مضامین

آخر دینی مسائل اور عہدے ہی مظلوم کیوں؟

ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ و بانی ٹرسٹ فلاح ملت
اوجھاگنج، بستی، یوپی، ۲۴؍جمادی الآخرۃ ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۸؍جنوری ۲۰۲۲ء

آج ہر پڑھا لکھا طبقہ یہ جانتا ہے کہ موجودہ دور، تخصص کا دور ہے، آج پوری دنیا تخصص کی اہمیت کو سمجھتی ہے، اسی کا لحاظ کرتے ہوئے، ہر متخصص کو اپنے تخصص کے مسائل میں گفتگو کرنے کی اجازت بھی دیتی ہے، اسی طرح ہر انسان جس میدان کا متخصص ہوتا ہے، اسی تخصص کے عہدے سے متصف کیا جاتا ہے اور اسی کے اعتبار سے اس کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں، مثلا کسی نے علاج و معالجہ کے میدان سے تخصص کیا ہے؛ تو وہ علاج و معالجہ ہی سے متعلق اظہار راے کی کوشش کرے گااور اس کو اس کے اسی تخصص کی بنیاد پر، پوری دنیا ڈاکٹر کے عہدے سے متصف کرےگی اور اس سے اس کے تخصص کے لحاظ سے ہی اس کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ اب علاج و معالجہ سے متعلق تخصص کرنے والا، نہ تو انجینئرنگ کے بارے میں اپنی راے پیش کرے گا اور نہ ہی اسے دنیا انجینئر کے عہدے سے یاد کرےگی اور نہ ہی اس کے تخصص کے علاوہ کوئی کام لے گی، اگر کوئی ایسا کرتا ہے؛ تو اہل دنیا اسے اس کی حماقت قرار دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، اسی طرح اگر کوئی انجینئرنگ کیے ہوئے ہے؛ تو وہ انجینئرنگ کے بارے میں ہی اپنی رائے کا اظہار کرےگا اور دنیا والے اسے انجینئر کے عہدے سے ہی متصف کریں گے، اب یہ انجینئر، علاج و معالجہ کے بارے میں نہ تو رائے زنی کرےگا اور نہ ہی دنیا والے اسے ڈاکٹر کے عہدے سے متصف کرنے کی کوشش کریں گے، اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی؛ تو دنیا والے اسے اس کی جہالت کا نتیجہ قرار دینے میں کوئی باک محسوس نہیں کریں گے۔

چودہ سو سال پہلے اور بعد کی کئی صدیوں تک دینی مسائل اور عہدوں کا بھی یہی حال تھا، جو جس فن کا زیادہ جان کار یا متخصص ہوتا تھا، وہ اسی کے مسائل میں اپنی رائے پیش کرتا تھا اور اس کو اسی کے پیش نظر، عہدے بھی دئے جاتے تھے، مثلا کوئی فقہ کے بارے میں زیادہ جان کاری رکھتا تھا یا اس کا متخصص ہوتا تھا؛ تو وہ فقہ کے مسائل ہی میں کلام کرتا تھا اور اس کے لحاظ سے اسے فقیہ یا مفتی کا عہدہ دیا جاتا تھا، اسی طرح اگر احادیث مبارکہ کے بارے میں زیادہ جان کاری رکھتا تھا یا اس کا متخصص ہوتا تھا؛ تو وہی احادیث کے بارے میں کلام کرتا تھا اور اس کی اسی مہارت کی بنیاد پر، اسے محدث کہا جاتا تھا، ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اگر مفتی، محدث نہیں ہے؛ تو وہ احادیث کے بارے میں کلام کرے اور اسے محدث کا عہدہ یا لقب دے دیا جائے یا اگر محدث، فقیہ نہیں ہے؛ تو وہ فقہی مسائل میں اپنی رائے پیش کرے اور اسے مفتی یا فقیہ کا عہدہ یا لقب دے دیا جائے، مگر پچھلی کچھ دہائیوں، خاص کر پچھلے کچھ سالوں سے ہمارے معاشرے کا بڑا برا حال ہے، جس کی بنیاد پر دینی مسائل اور عہدے و القابات بڑی مظلومیت کے شکار ہوئے اور ہوتے آرہے ہیں۔ شرعی مسائل میں جاہل سے جاہل شخص اپنی رائے دینا، اپنا حق سمجھتا ہے اور اسی طرح جو علامہ، مفتی یا محدث نہیں، اسے علامہ، مفتی اور محدث کا عہدہ یا لقب دینے میں کوئی ڈر محسوس نہیں کیا جاتا، لیکن اگر اپنے اسی معاشرے سے ایسے شخص کے بارے میں جس نے علاج و معالجہ میں مہارت حاصل کی ہے، کہا جائے کہ وہ انجینئرنگ کے بارے میں باتیں کرتا ہے؛ تو یہی معاشرہ کہے گا کہ اس نے جب انجینئرنگ کیا نہیں؛ تو اس کو اس تعلق سے بات کرنے کا حق نہیں اور اگر اسی معاشرے کے سامنے کہا جائے کہ وہ انجینئر ہے؛ تو یہی معاشرہ سر پر پہاڑ اٹھا لےگا کہ وہ انجینئر کیسے ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ اس نے انجینئرنگ کیا ہی نہیں بلکہ اس نے تو علاج و معالجہ میں مہارت حاصل کی ہے؛ لہذا وہ ڈاکٹر ہے انجینئر نہیں۔ اور ہمارے معاشرے کے لوگوں کا عجیب و غریب حال ہے کہ یہ معاشرہ خود اپنے معاملات کے لیے کسی غیر متخصص کے پاس جانے کے لیے تیار نہیں مگر اسی معاشرہ کے لوگوں کے لیے دو جملوں میں غیر متخصص کو متخصص کا ٹائٹل لگانے یا بنانے میں کوئی باک نہیں، یعنی خود تو گڈھے میں نہیں جائیں گے یا جانے سے بچیں گے مگر اپنی قوم کو گڈھے میں ضرور ڈھکیل کر ہی دم لیں گے!!

عام طور سے آج کے عوام، علماے کرام و مفتیان عظام کے بیان کردہ مسائل شرعیہ پر اپنی آنکھ و بھوں چڑھاتے نظر آتے ہیں اور چوں و چرا کرنے سے باز نہیں آتے، لیکن اگر یہی کسی بیماری کے سلسلے میں کسی ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں اور ڈاکٹر انہیں کوئی دوا یا انجیکشن تشخیص کرے؛ تو یہ اتنی بات بھی کہنے کی جسارت نہیں رکھتے کہ ڈاکٹر صاحب، اس دوا کے بجائے فلاں دوا دیدیجئے یا اس انجیکشن کے بجائے فلاں دوسرا انجیکشن دےدیجئے، اس کا سبب تخصص ہے، مگر عالم و مفتی کے تخصص کا کوئی مطلب نہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک عالم یا مفتی کے بیان کردہ مسئلہ پر اپنی رائے پیش کرنے کا جبری حق سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار کرتے بھی ہیں، آخر ایسا کیوں؟! ڈاکٹری و غیرہ کا تخصص، تخصص ہے مگر فقہ و حدیث و غیرہ کا تخصص، تخصص نہیں؟!

آج دینی عہدوں کو اتنا آسان اور سستا سمجھ لیا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی دوسرے عہدے اتنے آسان اور سستے ہوں، فلاں مولانا یا مفتی کا بیٹا ہے؛ تو وہ بھی مولانا یا مفتی ہی ہوگا، اگرچہ اسے مولانا یا مفتی کے میم سے واقفیت نہ ہو، پیر کا بیٹا ہے؛ تو پیر ہی ہوگا، اگرچہ وہ پیر کے شرائط پر کھرا نہ اترتا ہو اور اگر مقرر ہے؛ تب تو پوچھنا ہی کیا ہے، وہ علامہ، مفتی، فقیہ اور قطب سب کچھ ہے، یعنی دینی عہدے حاصل کرنے کے لیے مسلم سماج میں فقہ و حدیث یا تصوف میں تخصص کی ضرورت نہیں ہے، بس متخصص کا بیٹا یا مقرر ہونے کی ضرورت ہے، آپ کو ساری چیزیں خود بخود حاصل ہوجائیں گی۔ اور ان عہدوں کو سستا و بے اعتنا کرنے میں جہاں جاہل یا صرف جیب پر نظر رکھنے یا چاپلوسی کرنے والے نقیب کا بڑا ہاتھ ہے، وہیں بے جا شہرت و عزت حاصل کرنے کی خواہش اور اپنے بڑوں کی جانب سے چھوٹوں کے لیے بے جا دل جوئی یا لاپرواہی کا بھی دخل ہے، ان کی جانب سے جو مولانا نہیں، وہ مولانا قرار دے دیا گیا اور جو مفتی نہیں، اسے مفتی کا سہرا پہنادیا گیا اور جو علامہ نہیں، اسے علامہ کا بھاری بھرکم ٹائٹل دے دیا گیا۔ محترم یہ دین ہے، دین، اپنی جاگیر نہیں کہ جسے چاہیں بانٹتے پھریں بلکہ یہ تو دنیوی معاملات سے کہیں زیادہ اہم ہے، تو جب وہاں جاہل کو ڈاکٹر نہیں کہ سکتے، ڈاکٹر کو انجینئر نہیں کہ سکتے؛ تو یہاں جاہل کو عالم یا حافظ کیوں کر کہ سکتے ہیں یا عالم یا مولوی یا صرف حافظ کو مفتی یا فقیہ یا محدث یا علامہ کیوں کر کہ سکتے ہیں؟! کیا ماڈرن عہدوں کے لیے تعلیم و تعلم اور تربیت کی ضرورت ہے مگر دینی عہدوں کے لیے تعلیم و تعلم اور تربیت کی کوئی ضرورت نہیں؟! یقینا ضرورت ہے مگر برا ہو اس معاشرے کا جس نے اپنے ہی دینی عہدوں کے پیر میں ایسی کلہاڑی ماری کہ یہ عہدے، عہدے نہیں رہے بلکہ ٹائٹل، شہرت، اورعزت و ناموری کا ذریعہ بن کر رہ گئے۔

دور حاضر میں دینی مسائل اور خاص کر دینی عہدے بالکل مذاق بن کر رہ گئے ہیں، ہماری لاپرواہی کی وجہ سے ہماری قوم اور ہمارا معاشرہ کہاں جارہا ہے، ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں، ہم جس کو جو چاہیں گے، کہیں گے اور جن اچھے برے القابات سے چاہیں گے، نواز دیں گے، یہ ہمارا موروثی حق ہے! اور دوسری طرف ہم جاہل یا نا واقف ہوتے ہوئے بھی دینی مسئلہ میں ٹانگ ضرور اڑائیں گے! خدا را دینی مسائل پر ترس کھائیں، اسی طرح دینی عہدوں کو مظلوم ہونے سے بچائیں اور اس بات کی طرف خود توجہ دیں اور دوسروں کو بھی توجہ دلائیں کہ ہر کس و نا کس، خاص کر عوام، کسی شرعی مسئلہ میں اپنی رائے پیش نہ کرے اور جو فقہ و غیرہ کا متخصص یا تربیت یافتہ نہ ہو، اسے مفتی یا محدث یا فقیہ علامہ کہنے سے یکساں گریز کریں اور جو ان عہدوں کے لائق ہوں، انہیں ہی ان عظیم عہدوں سے متصف کریں ورنہ ایک دن ایسا آئے گا کہ کوئی مولوی یا حافظ نہیں دکھےگا بلکہ سب بے پڑھے یا کم پڑھے لکھے لوگ بھی مفتی و علامہ ہی نظر آئیں گے بلکہ ہر جاہل بھی اپنے آپ کو مفتی و علامہ کہلواتا نظر آئے گااور آج جو ان مسائل اور عہدوں کی تھوڑی بہت عزت بچی ہے، وہ بھی نیست و نابود ہوکر رہ جائے گی؛ اس لیے اپنی حد کو پہچانیں اور جس طرح دنیوی معاملات میں تخصص کا لحاظ کرتے ہیں اور ہمیشہ ہر میدان کے متخصص کے پاس ہی جاتے ہیں، اسی طرح دینی معاملات میں بھی متخصص کا لحاظ کریں اور جو شخص جس فن کا ماہر ہو، اس فن کے لیے اسی کی طرف توجہ کریں اور تخصص کے لحاظ سے ہی القابات دئے جائیں اور محض مقرر، صاحبزادے یا پیر زادے کو مفتی، فقیہ، محدث یا عالم یا علامہ جیسے محترم القابات دینے سے بچیں، یہ القابات امانت ہیں، امین کے پاس رہیں گے؛ توہ ان کی حفاظت کرے گا اور نااہل یا خائن کے پاس ہوں گے؛ تو وہ ان کا غلط استعمال کرے گا اور کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بہت کچھ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے