خواتین اسلام

فاطمہ بنت عبد اللہ:پھرتیری یاد آئی

تحریر: ریاض فردوسی۔9968012976

رسول اللہ صلی اللہ سلم نے ارشاد فرمایا! ایک وقت آئے گا جب دین پر چلنا ہاتھ میں آگ کا انگارہ لینے کے مانند ہوگا(اوکماقال ﷺ۔مفہوم ِحدیث)
سخت ترین ،نازک اور پرخطر حالات ایمان والوں کی زندگی میں ہمیشہ آتے رہتے ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے۔البتہ نوعیت بدلتی رہی ہے اور بدلتی رہے گے۔یہ بات اپنی جگہ پر طئے ہے کہ ایمان والوں کو آزمائشوں کے بھٹی سے ہو کر ہی گزرنا ہے۔اور یقیناًہم تمہیں خوف اوربھوک سے، مالوں، جانوں اورپھلوں کے نقصان میں سے کسی نہ کسی چیزسے ضرور آزمائیں گے اورصبرکرنے والوں کو آپ خوشخبری دے دیں(سورہ البقرہ۔آیت۔155)

کانپ اُٹھی ہے فضا ،اس شیرنی کی للکار سے
تیغ نہیں،شمشیر نہیں،بس اللہ اکبر کے وار سے

کفر کے آگے نعرۂ توحید بلند کرکے جو کارنامہ ہماری بہن نے پیش کیا ہے ،وہ لائق تحسین ہے۔چند سال قبل ہی ماب لینچنگ کے نام پرہم پر بے انتہا ظلم ڈھائے گئے،خوف ودخشیت کا ماحول پیدا کردیاگیا،ہرمقام پر ،ہرجگہ ہمیں ہراساں اور پریشان کیاجانے لگا،دہشت گرد کابدنماداغ ہمارے سر پر لگادیاگیا،ایسے پرآشوب ماحول میں میری غیرت مند بہن کا نعرۂ تکبیر بلند کرنا ،سنت سیدناابوذرغفاری ؓ ہے۔میری بہن کتنی پیاری اور اچھی لگ رہی تھی جب وہ کفر کے جئے شری رام کے نعروں کے جواب میںکلمۂ حق بلند کر رہی تھی۔میری بہن کے چہرے پر ڈرو خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔اپنے حجاب کو اپنا فخراور دین اسلام کو اپنی رگ وجاں میں سموں کر ہی نعرۂ تکبیر ’’اللہ اکبر اللہ اکبر ‘‘کی صدا سے فضا کو منور ومجلیٰ کررہی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے ایک شیرنی دھاڑ رہی ہے،اور بھیڑیے ڈر کر پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ہر صدائے اللہ اکبر پر کفر کے بتاں باطل ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے۔طاغوتی نظام کے پرستارششدر اور دم بخود تھے۔میرے بھائیوں کوشرمندگی اورپشیمانی ہورہی تھی کہ جوکام ہمیں کرنا چاہئے،وہ ہماری غیرت مند بہن کررہی ہے۔کفر کے مکروجال میں پھنس کر بے راہ روی کی شکار ان بہنوں کے لئے یہ سوچنے کامقام ہے۔

ذرا بڑھ کر کوئی منصور کو آواز دے دیتا
نہیں گونجا فضا میں نعرۂ مستانہ برسوں سے

میری بہن کے عظیم کارنامے نے تاریخ کے ذریں اوراق سے ایک واقعہ یاد دلا یا ،اسی کو پیش کر رہاہوں!
پہلی جنگِ عظیم میں ترکی کی عبرتناک شکست اور سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد اٹلی نے لیبیا کے مقامی لوگوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھا دیے یہاں اس تحریک اور اس کے بانی کا تھوڑا سا جائزہ پیش کر دینا مناسب ہے جس نے لیبیا اور ملحقہ ملکوں، مراکش، سوڈان، الجزائر وغیرہ کے مسلمانوں کے دلوں میں اس قدر جذبہ پیدا کر دیا تھا کہ فاطمہ جیسی معصوم بچی بھی جہاد کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔
سنوسی تحریک!یہ تحریک سید محمد بن علی سنوسی کے نام سے منسوب ہے۔ وہاں کے مقامی لوگ آج بھی ان کو السنوسی الکبیر کے نام سے اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ سید محمد بن علی، 1791ء میں الجزائر کے ایک چھوٹے سے قصبے سنوس میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے تیونس، قاہرہ اور مکہ میں تعلیم حاصل کی۔ 1837ء میں آپ نے ایک اصلاحی تحریک شروع کی، جس کا بنیادی مقصد سنتِ نبویﷺ اور شریعت پر عمل کرنا تھا، یہ ایک انتہائی سادہ تحریک تھی اس لیے لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہوتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک تمام شمالی افریقہ میں پھیل گئی۔ سید محمد نے اصلاح کی غرض سے مختلف شہروں میں خانقاہیں اور حلقے قائم کیے جو زاویہ کہلاتے تھے، جہاں پر لوگوں اور بچوں کو شریعت اور سنتِ نبوی کے ساتھ ساتھ، زراعت، باغبانی، پارچہ بافی اور معماری کی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ جذبہ جہاد کی بھی تلقین کی جاتی تھی۔ آپ کا انتقال 1859ء میں ہوا اور آپ کے فرزندگان نے اس تحریک کو جاری رکھا اور جنگ طرابلس اور ما بعد جنگوں میں آپ کی اولاد ہی سپہ سالار تھی۔
اس تحریک کا اثر اور اٹلی کے خلاف جہاد!

پہلی جنگِ عظیم کے بعد 1923ء میں اٹلی کے فاشسٹ حکمران، مسولینی نے لیبیا کے لوگوں کو سبق سکھانے اور اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر فوجی مہم شروع کی۔ اس وقت کی سپر پاور اٹلی کا مقابلہ ان نہتے اور بے یار و مدد گار مجاہدوں نے سالوں تک کیا لیکن 1927ء تک اٹلی نے چن چن کر مجاہدین کو تقریبا ختم کر دیا اور 1931ء میں اس تحریک کے مرکز کفرہ کو فتح کر لیا۔ اور اس تحریک کے راہنماؤں اور مجاہدوں کو اذیت ناک سزائیں دے کر مار ڈالا۔ اس وقت اس تحریک کے رہنما عمر مختار تھے، جنھیں اٹلی نے گرفتار کرنے کے بعد پھانسی کی سزا سنائی اور لوگوں کو عبرت کا سبق سکھانے کے لیے اس پھانسی کے لیے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا جس میں لیبیا کے بیس ہزار سے زائد باشندوں کو گرفتار کرکے زبردستی شامل کیا گیا تا کہ ”باغی” کا انجام دیکھیں۔ لیکن جو تحریک عوام کے دلوں میں بسی ہو اور ایمان کی حرارت اس میں جوان لہو شامل کرتی رہے وہ بھلا کب ختم ہوتی ہے دوسری جنگ عظیم میں اس تحریک کو ایک دفعہ پھر ابھرنے کا موقع ملا اور اس دفعہ انہوں نے اتحادی فوجوں کے ساتھ مل کر اٹلی کا مقابلہ کیا اور جنگ کے بعد اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی رو سے 1951ء میں مکمل خود مختار ملک بن گیا۔ لیبیا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ کی حمایت سے آزادی حاصل کی۔
فاطمہ بنت عبداللہ (ولادت: 1898ء – وفات:1912ء) 14 سالہ معصوم عرب لڑکی تھی، جو 1912ء میں اطالوی ترک جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی اور اس کا ذکر علامہ محمد اقبالؔ نے اپنے مجموعہ کلام بانگ درا کے نظم فاطمہ بنت عبد اللہ میں کیا ہے۔

فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت،حور صحرائی! تری قسمت میں تھی
غازیان دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر
یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر میں تھی!
علامہ اقبالؔ

فاطمہ جذبہ شہادت سے مامور تھی، اس نے بھی میدان جنگ میں وہی کام کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں صحابیات کرام کیا کرتی تھیں۔
جنگِ طرابلس، اصل میں اٹلی اور سلطنت عثمانیہ کی جنگ تھی، جس میں ترکی نے تو شکست مان کر طرابلس اور دوسرے صوبے (موجودہ لیبیا) اٹلی کے حوالے کر دیے تھے، لیکن وہاں کے مقامی مجاہدین نے، غیر ملکی قابضین کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رکھی۔
1912ء کو عصر کے وقت مجاہدین کا ایک دستہ اطالوی توپ خانے کو تباہ کرنے کے لئے آگے بڑھا تو کمسن مجاہدہ فاطمہ بنت عبد اللہ بھی ان کے ساتھ تھی۔ اس دوران مجاہدین کی اطالوی فوج کے ایک بڑے جتھے سے جھڑپ شروع ہوگئی۔جھڑپ میں 4 مجاہدین زخمی ہوکر نیچے گر پڑے تو فاطمہ بھاگتی ہوئی ان کے پاس گئی اور اپنا مشکیزہ ایک مجاہد کے سینے پر رکھ دیا۔ وہ اپنے زخمی مجاہد بھائی کو پانی پلانا چاہتی تھی۔ اچانک ایک اطالوی سپاہی نے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔ فاطمہ نے اس فوجی سے ایک دم اپنے آپ کو چھڑایا اور قریب پڑی ہوئی ایک زخمی مجاہد کی تلوار اٹھاکر اس زور سے اطالوی فوجی پر وار کیا کہ اس کے دائیں ہاتھ کا پنجہ کٹ کر لٹک گیا۔ اطالوی فوجی نے چیختے ہوئے پیچھے ہٹ کر بائیں ہاتھ سے اپنی بندوق اٹھائی اور اس معصوم مجاہدہ کو پے در پے تین گولیاں مار کر شہید کر دیا،لیکن اس وقت کی خلیفہ کی بزدلی اور ایمان فروشی کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنی کمزور رعایا کو ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کر لیا تھا۔
آخر میں!
’’خود ترقی پسند اور جدید ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں عورت کی جذباتی اور معاشرتی کشمکش کو مسخ کرکے پیش کرتی رہی ہیں۔خواہ وہ راشد ؔکی نظم میں ہم رقص ہو یا مجازؔ کی ’’آنچل کو پرچم بنانے والی باغی لڑکی‘‘ ہو، عورت کے جسم و ذہن کی اتنی ہی اہمیت ہو جتنی مرد کی، کہیں نظر نہیں آتی۔ اور غزل کی حکمرانی نے عورتوں پر تغزل کے دروازے میں اس طرح بند کیے تھے کہ وہ جانِ غزل تو بن سکتی تھی مگر خود غزل گو نہیں بن سکتی تھی‘‘(بحوالہ: شاعری کی تنقید، ابوالکلام قاسمی، ص:318)
عورت سات خاندان کو تعلیم یافتہ کرتی ہے۔اسی کے وجود کی روشنی سے ہی قومیں بنتی ہیں،اور ہدایت کا راستہ پاتی ہیں، اگر یہ تعلیم یافتہ نہ ہوگی تو پوری قوم تاریکیوں میں گم ہو کر تباہ وبرباد ہوجائے گی،لیکن وماری بچیوں ،بیٹیوں اور عورتوں کی تعلیم وتربیت ایسی ہونی چاہئے کہ عریانیت و فحشای کی بو باس تک نہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے