نتیجہ فکر: فرید عالم اشرفی فریدی
جو سجاتے ہیں لب پر درود و ثنا
گھر میں آتی نہیں ان کے کوئی بلا
ہے تمنا مرے اتنی سی یا خدا
وقتِ رحلت رہے لب پہ اُن کی ثنا
مشکلیں دور ہونے لگی سب مری
لب پہ جب نام آیا اے مشکل کشا
ڈوبا سورج پلٹ آگیا دوستوں
اک اشارہ شہ دیں کا جب مل گیا
کیوں نہ قربان جائے یہ سارا جہاں
آپ پر جان رحمت حبیب خدا
کیجے چشم عناں اس گنہگار پر
ہو کرم کی نظر سید الانبیاء
ماں کے قدموں کے نیچے ہے باغ جناں
ہے یہ فرمان سلطان ہر دوسرا
تیری مدحت فریدی کرے عمر بھر
ہو ہنر ایسا اس کو عطا مصطفٰی