گوشہ خواتین مذہبی مضامین

مسلم خواتین کی پاک دامنی پر شیطانی گروہ کی گندی نظر

تحریر: انصار احمد مصباحی، پونہ

بی جے پی کے اقتدار پر (2014ء میں) آتے ہی بھارت میں اسلاموفوبیا کا باڑھ آ گیا۔ پہلے بھی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا اور متعصبانہ ریوں کے واقعات ہوئے ؛ لیکن آر ایس ایس نواز زعفرانی پارٹی کو حکومتی پاور ملتے ہی فرقہ پرستوں کے پر نکل آئے۔ ہجومی تشدد کے پے بہ پے واقعات ، بابری مسجد کا غیر منصفانہ فیصلہ ، سی اے اے اور این آر سی جیسے قوانین ، کشمیر کے خصوصی قانونی 370 کی تنسیخ ، فسادات اور شہروں کے مسلم ناموں کی تبدیلی جیسے واقعات اسی اسلام دشمنی کے عنصر کا داعیہ تھا۔ تازہ معاملہ مسلم طالبات کے حجاب کو لے کر سرخیوں میں ہے۔ کرناٹک کے کئی کالجوں میں طالبات کو حجاب پہن کر داخل ہونے سے روک لگا دی گئی ہے۔ کئی دنوں سے بچیاں احتجاج کر رہی ہیں۔ ہمارے ملکی لیڈران کی نا عاقبت اندیشی دیکھیے کہ ایک طرف حجاب پر پابندی کی وجہ سے پورے ملک میں تشدد کی صورت حال ہے ؛ وہیں مدھیہ پردیش کے ریاستی وزیر اندر سنگھ پرمار نے یہ کہہ کر کرناٹک میں لگی آگ میں گھی ڈال دیا کہ ”مدھیہ پردیش میں اسکولوں میں حجاب پر پابندی لگانے پر ریاستی حکومت غور کر رہی ہے“۔ سچ ہے ، جب عوامی جمہوریہ میں رنگ و نسل اور ”کام کام “ کی بجاے ”رام رام“ پر انتخابات ہوں تو یہی ہوتا ہے۔

مسلم خواتین کی تضحیک کا معاملہ:
اس سے پہلے بُلی بائی اور سُلی ڈیلز جیسے ایپ بناکر، سماجی اور صحافتی خدمات انجام دینے والی مسلم خواتین کی تضحیک کا معاملہ سامنے آیا۔ مسلم خواتین کی تضحیک کا اس سنگین جرم کی داغ بیل گذشتہ بقرعید ہی میں ڈالی گئی تھی۔ در اصل اس میں انتظامیہ ، سرکار اور پولیس کی لاپرواہی بھی داخل ہے۔ 5، جولائی 2021ء کو ٹویٹر کھولا گیا تو ٨٠/ کے قریب مسلم خواتین کو معلوم پڑا کہ سوشل میڈیا پر ان کی تصویریں وائرل ہوئی ہیں ، ان کی بولی لگائی جا رہی ہیں، کئی خریدنے والے تیار ہو گئے ہیں۔ کوئی جھاڑو پوچھا کے لئے خرید رہا ہے تو کوئی برتن دھونے کے لئے ، یہاں تک کہ شب باشی کے لئے بھی کچھ ہوس پرستوں نے بولی لگائی۔ یہ سب دیکھ کر ان خواتین کے ہوش اڑ گئے۔ سرعام عصمت تار تار ہوتی دیکھ کر ان کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ یہ ایک طرح کی جعلی بولی تھی ، جس میں کچھ خریدنا بیچنا نہیں تھا ؛ بلکہ اس کے ذریعہ ان خواتین کی اہانت مقصود تھا۔

مشہور صحافی عصمت آراء بھی انھیں متاثرین میں سے ایک تھیں۔ عصمت آراء ٹویٹ کرتی ہیں:
” سُلی ڈیلز کی طرح اس قابل نفرت بُلی ڈیلز میں مجھ سمیت بہت سی مسلم خواتین کا نام ہے۔ یہاں تک کہ نجیب کی والدہ کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہ انڈیا کے شکستہ نظام انصاف کا غماز ہے۔ کیا ہم خواتین کے لیے بھارت سب سے غیر محفوظ ملک بنتے جا رہا ہے؟۔ (بی بی سی اردو ، 2/ جنوری 2022ء)

سُلی ڈیلز / بُلی بائی ” کیا ہے:
یہ دونوں ایک طرح کے اپلیکیشن (App) تھے ، جنھیں ٹویٹر سے کنٹرول اور چلایا جا رہا تھا۔ انھیں کھولتے ہی اوپر لکھا ہوتا تھا: "Find your SulliDeal” اوپن کرتے ہی ایک مسلم لڑکی کی قابل اعتراض تصویر سامنے آتی ، ساتھ میں ٹویٹر ہینڈل اور کچھ بنیادی معلومات ہوتی تھیں۔ اس تصویر کے اوپر لکھا ہوتا: "Your SulliDeal of the day”
پھر شر پسندوں کی جانب سے اس پر گھنونے تبصرے ، فحش بازیاں اور گالم گلوج کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ یہی حال ”بلی بائی“ کا تھا۔ اب تک سو سے زائد خواتین کی تصاویر اپلوڈ کی جا چکی تھیں۔ یہ دونوں اپلیکیشن گٹ ہب (GitHub) میں تیار کیے گئے تھے۔

اب یہ گٹ ہب (GitHub) کیا ہے؟:
وکی پیڈیا میں گٹ ہب کی تعریف یوں ملی ہے: ” گٹ ہب (GitHub) سافٹ ویئر منصوبوں کے کوڈز وغیرہ رکھنے کے لیے ایک ویب بیسڈ خدمت ہے۔ گٹ ہب ذاتی سافٹ ویئرز کے لیے قیمتا خدمات مہیا کرتا ہے“۔ آسان لفظوں میں کہوں تو اس سافٹ ویئر کی مدد سے ایپس (apps) اور سائٹس بنائی جا سکتے ہیں اور انھیں کو ترقی دیے جا سکتے ہیں۔ تفتیش کے بعد چند سنسنی خیز اور چونکانے والے حقائق سامنے آئے ہیں مثلا:
(١) متاثر ہونے والی ساری لڑکیاں یا عورتیں وہ تھیں ، جو مودی حکومت پر صالح تنقیدیں کر چکی ہیں اور سوشل میڈیا اور سماجی کاموں میں ایکٹیو رہتی ہیں (٢) خواتین کی تضحیک کے اس جرم میں ملوث ننانوے فیصد مجرمین کی عمر پچیس سال سے کم ہے۔ (٣) انھوں نے اپنے بچاو کے لئے کسی بھی طرح کی احتیاطی تدبیر یا سیکوریٹی نہیں برتی تھی۔

جہاں بھارت میں اسلاموفوبیا عرورج پر ہے، اقوام عالم میں اسلام کے خلاف ماضی قریب کا نظریہ یکسر تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہاں گردش ایام نے پہیا الٹا گھما دیا ہے۔ ثبوت کے طور پر چند شواہد پیش ہیں:

30/ جنوری ، 2022ء کو کینیڈا کے وزیر اعظم "Justin Tredeau” نے ٹویٹ کرکے ایک بڑا اعلان کیا ہے۔ ، اسے پاکستان کے وزیر اعظم سمیت کئی عالمی لیڈروں نے ریٹویٹ کیا۔ جسٹن ٹریڈیو کہتے ہیں:
” Islamophobia is unacceptable. We need to put an end to this hate and make our communities safer for Muslim Canadians. To help with that, we intend to appoint a Special Representative on combatting Islamophobia.”
ترجمہ: اسلامو فوبیا ناقابل قبول ہے۔ ہمیں اس نفرت کو ختم کرنے اور کینیڈا کے مسلم باشندوں کے لیے اپنی کمیونٹیز کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم اس میں مدد کے لیے اور اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس سے دو ماہ قبل امریکہ میں برسر اقتدار ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن الحان عمر نے ، امریکی کانگریس میں اسلاموفوبیا پر پابندی کے تعلق سے قانون بنانے کی تجویز پیش کی تھی ، جسے منظوری بھی مل گئی ہے، جو بائیڈن سمیت اس بل کا اکثریت نے خیر مقدم کیا تھا ۔ وہیں روسی صدر ولادیمر پوتن نے 2021ء کی آخری پریس کانفرنس میں مبینہ طور پر کہا تھا:
” پیغمبر اسلام ﷺ کی اہانت کو آزادی اظہار نہیں کہا جا سکتا“۔ ابھی کچھ دنوں پہلے فلپائن میں فوج کے ایک ڈپارٹمنٹ کو حجاب پہننے کی قانونی منظوری ملی ہے۔ یہ واقعات ”مشتے نمونہ از وارے “ ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلسل پروان چڑھنے والا اسلام مخالف نظریہ اور 9/11 کے بعد پوری شدت اختیار کر لینے والی تحریک پر اب سرد مہری طاری ہو رہی ہے۔ سام ، دام ، دنڈ ، بھید سب حربے استعمال کر چکنے کے بعد اب اسلام مخالف طاقتین دم توڑنے کے دہانے پر ہیں۔ "الاسلام یعلو ولا یعلی”۔

جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا:
وقت بھی کیا کیا گل کھلاتا ہے! امریکہ اور یورپ نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں کو ظلم و اذیت سے زیر نہیں کیا جا سکتا۔ عراق اور افغانستان کی جنگیں درس عبرت بن گئیں ہیں، ظالم ظلم کرکے راہ فرار اختیار کر لیے ، مظلوم جفا سہ کر فاتح و کامران رہا۔ انھیں بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اسلام کا پودا جتنا کٹتا ہے ، اتنا ہی ہرا ہوتا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ آج مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے ۔ روئے زمین کی مجموعی آبادی کا چوتھا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کے ایک بڑے رقبے پر آباد ہیں۔ ۵۴/ ملین مربع میل کا ایک چوتھائی حصہ ان کے قبضے میں ہے اور روئے زمین کے سرسبزوشاداب خطے ان کی سکونت میں ہیں ، جنھیں تقریباََ تمام قدیم تہذیبوں کا مرکز و محور ہونے کا شرف حاصل ہے۔عالم اسلام زمین کے ایک اہم اوروسیع رقبے پر مشتمل ہے جو قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے۔ جنوبی خط استوا سے پھیلتے ہوئے وسط ایشیا میں۵۵/ خط عرض سے بھی زائد حصے اس کی قدرت و تصرف میں ہیں۔مختلف آب و ہوا کے تین منطقے مسلمانوں سے آباد ہیں۔ منطقہٴ حارہ کا منتشر حصہ، منطقہٴ صحراویہ اور منطقہٴ متوسطہ ان کی تگ وتاز اور بود وباش کا مرکزہے۔اسی لیے عالم اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس خطے میں متنوع نباتات پائی جاتی ہیں اور زراعتی پیداوار کی نوع بنوع اقسام یہاں موجود ہیں۔فوجی میدان میں اسلحہ کی طاقت کے اعتبار سے عالم اسلام گو بہت پیچھے ہے؛ لیکن افراد و وسائل کے لحاظ سے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔اس کے علاوہ عالم اسلام میں ترکی و الجزائر سے لے کر افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک تک جنگجو، طاقت آزما اور بہادر افراد کی کمی نہیں ہے۔

مغربی دنیا اب تک مختلف ذرائع سے سیاسی، سماجی ، فوجی اور اقتصادی سطح پر مسلمانوں پر حاوی رہی ہے۔ لیکن ایک طرف مسلمانوں میں بیداری پیدا ہونے کے بعد انھیں یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ اگر عالم اسلام کو کچھ لائق اور ژرف نگاہ قائد میسر آگئے اور انھوں نے اپنی بکھری قوتوں کا استعمال کر نا سیکھ لیا تو وہ دن دور نہیں جب کہ مغرب کی قیادت کا طلسم چکناچور ہوکر بکھر جائے گا اور عالم اسلام قیادت و جہاں بانی کی نئی بلندیاں طے کرتا ہوا نظر آئے گا۔دوسری طرف اہل مغرب کو خود اپنے ملکوں میں پیر تلے زمین کھسکتی نظر آرہی ہے، مسلمان پورے اسلامی تشخص اور تہذیبی شناخت کے ساتھ ہر میدان میں پورے یورپ و امریکہ میں اپنا وجود تسلیم کرا رہے ہیں۔

اس ہوش ربا تبدیلی پر یورپ اور امریکی کی کڑی نظر تھی۔ ان کی نگاہ رشک سے زیادہ حاسدانہ اور معاندانہ تھی۔ شدید آپسی اختلافات کے با وجود ، محض اسلام کے خلاف ہم خیال ہونے کے جذبے سے ، یہودیوں کی ”صیہونیت“ ، عیسائی دنیا کی ”صلیبیت“ ، امریکہ کی ”سی آئی اے“ اور اسرائیل کے ” موسد “کے درمیان ایک عملی اور خفیہ معاہدہ ہو گیا۔ اسلامی سیاست اور قیادت کی بیخ کنی کے لئے ”دہشت گردی“ نام کی ایک اصطلاح وضع کی گئی۔ اس برانڈ کے لیبل لگے ہوئے کچھ گروہوں کو کثرت سے مہلک ہتھیار سونپے گئے ، ان کے مزاج اور منشا کے مطابق ریڈی میڈ حالات پیدا کیے گئے، انھیں مرضی کے سازو سامان مہیا کیے گئے۔ اس درمیان مسلمانوں کے مذہبی پیشواؤں کو کثرت سے نشانہ بنایا گیا۔ پیغمبر اعظم ﷺ کی شان اقدس میں کھلے منہ گستاخیاں کی گئیں ، ڈنمارک ، فرانس اور اسپین ، ہالینڈ وغیرہ سے آپ ﷺ کے خاکے اور کارٹور شایع کیے گئے۔ مغربی ملکوں میں قرآن عظیم کی اہانتیں کی گئیں ۔ انہی دنوں امریکہ کی کٹھ پتلی آل سعود کے ذریعہ روضہ رسول ﷺ کی منتقلی کے ارادے کی خبریں سرخیوں میں آ گئیں۔ برقع پر پابندی ، داڑھی پر تنازع جیسے واقعات کثرت سے وقوع پذیر ہوئے۔ یہ سب کچھ "Everythin is planed” کے ایک منشور کا حصہ تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں موجودہ فرقہ پرستی اور بھید بھاو تاریخ کی سب سے اونچی سطح پر ہے۔لیکن ایسے ملک مخالف عناصر کو آگاہ ہوجانا چاہیے کہ یہی کھیل یورپ اور امریکہ میں کھیلا گیا ، بر ما میں کھیلا گیا ، چین اور روس میں کھیلا گیا۔ سب کی عقلیں ٹھکانے پر آ گئیں ۔ دنیا دیکھ چکی ہے کہ اسلام دبانے سے ابھرتا ہے ، ظلم سے بڑھتا ہے ، یہ وہ چراغ ہے ، جس کی روشنی آندھیوں اور طوفانوں میں بھی تیز رہی ہے ۔سنگھی مزاج حکومت کے کارندے پھونکوں سے اس کی لو کو مدھم نہیں کر سکتے۔ آج امریکہ ، روس ، سویزر لینڈ ، فلپائن ، اسپین اور چین سمیت بڑے بڑے ملکوں نے ہوش کے ناخن لے لیے ہیں۔ انھیں سمجھ میں آگیا ہے کہ مسلمانوں سے دوستی اور ان کی حمایت لینے ہی میں فائدہ ہے۔ جلد نہیں تو دیر ہی سہی ، ہندوستان کے فرقہ پرست سنگھیوں کو بھی سمجھ میں آ جائے گا۔ ابھی خدا نے رسی ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے۔ وہ کب اپنی رسی ٹان لے ، کوئی نہیں کہ سکتا۔ ؎

یہاں انصاف کی چکی ذرا دھیرے سے چلتی ہے
مگر چکی کے پاٹوں میں بہت باریک پستا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے