علما و مشائخ

شمالی ہند وجنوبی ہند کے علما: اصول وطریقۂ کار

ازقلم: محمد مجیب احمد فیضی
استاذ/دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ، بلرام پور
email:faizimujeeb46@gmail.com

کیرلا میں اسلام کب آیا اس سلسلے میں مختلف روایات ہیں ،بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ کیرلا میں اسلام نبئ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی آیا تھا۔
بعض اہل دانش سن دوہجری میں کیرلا میں اسلام کی آمد کا اعتراف کرتے ہیں۔بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ جب محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا تو اس کے ساتھ ہی کیرلا میں اسلام کی اشاعت ہونی شروع ہو گئی۔ موخر الذکر روایت محل نظر اس لئے ہے کہ سندھ سے کیرلا کی مسافت تقریبا دوہزار کلو میٹر ہے اس لئے اس حملے کا اثر اتنی لمبی مسافت پر فی الفور کیسے ہو سکتا ہے؟اصل بات یہی ہے کہ کیرلا میں اسلام محمد بن قاسم کے حملہ سے پہلے ہی موجود تھا۔
کیرلا میں اسلام کس طرح پھیلا اس سلسلے میں متعدد روایتیں بیان کی جاتی ہیں۔اس میں سب سے زیادہ قوی اور معتبر روایت میرے نزدیک یہ ہے کہ جبل آدم جو کیرلا میں ایک بہت ہی مشہورو معروف مقام ہے کیرلا کی سرزمین پر اسے اشاعت اسلام کا سب سے اہم سبب قرار دینا چاہئیے ۔
اس کی تاریخ کچھ اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ شیلانگ جہاں ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے قدموں کے نشان ہے اس نشان قدم کی زیارت کے لئے عربوں کی ایک جماعت نے بحری راستے سے شیلانگ کا سفر کیا،دوران سفر جب وہ لوگ کیرلا کی بندرگاہ کودنغلور پہونچے جو اس زمانے میں کیرلا کا دارالسلطنت بھی تھا تو وہاں کے راجا چیرومان پیرومال نے ان حضرات کی بڑی قدر و منزلت اور خاطر تواضع کی اور جب یہ معلوم ہواکہ یہ لوگ عرب سے آئے ہیں تو اس نے اس وفد سے اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تفصیل جاننی چاہی۔جب اس راجہ کو وہاں اسلام کی آمد اور پیغمبر اسلام کے بارے میں تفصیل معلوم ہوئی تو اس نے خود عرب جاکر پیغمبر اسلام سے ملاقات کی تمنا کا اظہار کیا اور امیر وفد سے کہا کہ جب آپ نشان قدم آدم کی زیارت سے واپس آئیں تو مجھے بھی اپنے ہمراہ عرب لے چلیں تاکہ میں اس نبئ مکرم کی زیارت سے مشرف ہو سکوں ، جس نے اسلام کا ڈنکا پورے عرب دیس میں بچا دیا ہے۔چنانچہ جب وہ وفد نشان قدم آدم کی زیارت سے واپس آیا تو اس وفد کے ساتھ بادشاہ نے اپنا رخت سفر باندھا۔راجہ اپنی عمر کے آخری مرحلے میں تھا اس نے ارکان سلطنت اور اپنے خاندان کے لوگوں کو بلایا نصیحتیں کیں اور اپنے سفر کے مقاصد بیان کئے اور وفد کے ساتھ پیغمبر اسلام کی زیارت کے لئے چل پڑا۔جب راجہ ملک عرب پہونچا ،اسلام قبول کیا تاج الدین نام تجویز ہوا۔پیغمبر اسلام سے ملاقات ہوئی کہ نہیں اس بارے میں تفصیل تو کہیں نہیں ملتی البتہ جب وہ واپس آیا تو راستے میں مرض الموت نے اسے دبوچ لیا اور "بلد شحر”جو بحر ہند کے ساحل پر یمن کے قریب واقع ہے وہاں اس کی موت ہو گئی اور وہیں اس راجہ کی تدفین عمل میں آئی۔کیرلا کی اس سر زمین پر وہ راجہ اپنے اسلامی نام تاج الدین سے آج بھی مشہور ہے۔واپسی پر تاج الدین کے ہمراہ حضرت مالک بن دینار اور دوسرے ان کے ساتھی بھی تھے۔تاج الدین کی حالت جب دوران سفر خراب ہو گئی تو اس نے اپنے خاندان کے اہم لوگوں کو خط لکھا جس میں اس نے اپنے سفر کی تفصیل لکھی ۔خط اپنے رفقاء سفر کو دیا اور یہ گزارش کی کہ یہ خط میرے متعلقین اور وارثین کو ضرور پہونچا دیا جائے۔حضرت مالک بن دینار نے راجہ کی تدفین کے بعد اپنا سفر اپنے رفقائے سفر کے ساتھ جاری رکھا کودنغلور آئے اور راجہ کے وارثین کو وہ خط سپرد کردیا۔اس خط نے کیرلا کی سرزمیں پر اسلام کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔اس وفد کے کودنغلور پہونچنے پر اس وقت کے راجہ نے ان حضرات کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور پر تکلف مہمان نوازی کی ۔ان حضرات نے وہاں اقامت فرما کر سواحل سمندر سے اسلام کی نشر واشاعت کے سلسلے میں جو کوششیں کیں وہ کیرلا کی مذہبی وتہذیبی وتاریخ میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہیں۔اس واقعہ کا ذکر کیرلا کے اکابر علماء نے اپنی تصانیف میں متعدد طریقوں سے کیا ہے۔

اسی راجہ کے تعلق سے ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ کیرلا کےایک راجہ نے زمانہ رسالت میں شق قمر کا معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
"تحفۃ المجاھدین "کے حوالے سے "المسلمون فی کیرلا” کے مصنف لکھتے ہیں کہ جب حاکم ملیبار پیرومال نے زمانہ رسالت میں شق قمر کا معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اس نے اپنے احباب واصحاب کو دور دراز علاقوں میں اس واقعہ کی تحقیق کے لئے بھیجا کہ شق قمر یہ کیسا معجزہ ہے تو اسے خبر یہ ملی کہ سر زمین عرب میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نامی کسی شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور اس نے دعوائے نبوت کے ثبوت میں شق قمر کا معجزہ دکھایا ہے ۔حاکم ملیبار چیرومال پیرومال کو اس نبی کی زیارت کا شوق دامن گیر ہوا اس نے اپنے متبعین کے ساتھ سمندری راستے سے سفر کیا اور سر زمین عرب پہونچ گیا،اس کے سفر کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ خود اپنی آنکھوں سے اپنے نبی کی زیارت کا شرف حاصل کرے وہ کچھ دنوں مکہ معظمہ رہا اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسلام قبول کیا پھر اپنے ملک واپس ہوا تو راستے میں شہر ظفار جو عمان میں ہے وہیں موت آگئی اور پھر وہیں مدفون ہوئے۔اس وقت ان کے رفقاء سفر میں پندرہ مرد اور پانچ عورتیں تھیں جن میں کچھ کے نام اس طرح ہیں ۔حبیب بن مالک ،عبدالرحمن بن مالک، محمد بن مالک ، علی بن مالک،تقی الدین بن مالک ،ابراہیم ،موسی،عمر،فاطمہ،زینب ،قمریہ،عائشہ ،حلیمہ۔
وفد کو راجہ چیرومان نے وصیت کی کہ آپ لوگ ملیبار جائیں اور وہاں اسلام کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیں ۔اس واقعہ کا تذکرہ متعدد مؤرخین نے اپنی تصانیف میں مختلف انداز میں کیا ہے،اور مزیداسکی تفصیل "المسلمون فی کیرلا "
نامی مشہور ومعروف کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے، جو علماء کرام کے میز کی زینت بنی ہوئی ہے۔فقیر راقم الحروف کو کثرت مشاغل کے باعث بھی جستہ جستہ اس کتاب کو پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔
اس وفد نے ملیبار پہنچ کر جگہ جگہ مساجد قائم کیں۔کاسر کوڈ کی مسجد بھی اسی دور کی ایک عظیم یادگار ہے ۔

شمالی ہند وجنوبی ہند کے علماء۔اصول وطریقۂ کار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بات سمجھ میں یہ نہیں آتی ہے کہ کس کس معاملہ میں ہم جنوبی ہند کے مسلمانوں سے سبق لیں تعلیم ہو یا سیاست،اتحاد اخوت ہو یا ادب وثقافت ،ہر محاذ پر وہ شمالی ہند کے مسلمانوں (ہم سے) کہیں زیادہ ممتاز اور نمایاں نظر آتے ہیں۔ان کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ شمالی کے مسلمانوں کی طرح اپنی بیش بہا اور قیمتی ، پوری رات کسی تقریب کے نذر نہیں کرتے ہیں اپنے ہر جلسے دینی ہو یا ملی،مذہبی ہو یاسیاسی پانچ بجے شروع کرتے ہیں اور گیارہ بجے شب ختم کردیتے ہیں،اور پھر صبح تازہ دم ہو کر اپنے کاموں سے لگ جاتے ہیں۔
شمالی ہند کے مسلمانوں جیسا نہیں کہ یہ حضرات اپنا جلسہ اور اجتماع ہی گیارہ بجے شب شروع کرتے ہیں تو اس اجتماع اور جلسہ کا صبح تک چلنا لازمی ہوتا ہے۔ایسی صورت حال میں وہ شخص جو کسی کے یہاں نوکری یا ملازمت کرتا ہے اسے وقت مقررہ مثلا ۹/بجے پہونچنا اور خود پر عائد ہونے والی ضمہ داریاں بحسن وخوبی انجام دہی میں کافی دشواریوں کا سمنا کرنا پڑتا ہے ۔اور پھر ایسے اجتماع اور جلسوں کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی سنا گیا ہے کہ رات والا جلسہ بڑا ہی کامیاب رہا اور رات بھر چلتا رہا۔اس کامیاب جلسہ کا اثر یہ ہوتا ہے کہ عموما نماز فجر چھوٹ ہی جاتی ہے۔اور پھر ہم پورا دن کسی کام کے نہیں رہتے۔کسی بھی مذہبی اور دینی تقریب کے لئے پانچ چھ گھنٹے کچھ کم نہیں ہوتے ، پوری رات نماز کی اہمیت اور اس کی فضیلت پر تقریر ہو اور فجر کی نماز غائب ہو جائے تو ایسے طویل اور رات بھر چلنے والے کامیاب جلسوں سے کیا فائدہ؟ پوری شب اسوۂ رسول اور سیرت مصطفی علیۃ التحیۃ والثناء پر دھواں دھار گفتگو ہو اور سامعین کرام صبح سحر خیزی سے محروم رہیں اس سے کیا حاصل؟
ہمیں اپنے جلسوں کے اس انداز اور اہل جلسہ کے اس غیر مناسب رویے کو بدلنا ہوگا اور وہی طریقۂ کار اپنانا ہوگا جو کیرلا کے مسلمانوں نے اپنایا ہے۔ حالانکہ شمالئ ہند کے مسلمانوں کے اس طریقۂ کار سے بیشتر شمالئ ہند کے عوام ودانشوران اور علماء کا ایک طبقہ بھی نالاں ہے مگر "بلی کے گلے میں گھنٹی کون ڈالے”یعنی پہل کون کرے کیوں کہ ہم سنیوں کا مزاج اب اقتدا کا نہیں اتباع کا ہے ،کسی نے فضائل اعمال کے نام سے کتاب لکھی ہم نے جھٹ اس میں سنی کا ضافہ کرکے” سنی فضائل اعمال” کردیا "جمعیۃ العلماء” کے نام سے کسی نے مذہبی اور سماجی تنظیم بنائی ہم نے اس کے اندر بھی سنی کی پیوند کاری کرکے اپنانے کی کوشش کی اور ایک” سنی جمعیۃ العلماء "بنا کر تیار کردیا۔بہشتی زیور نامی کتاب سے آپ سبھی واقف ہوں گے مگر سنی بہشتی زیور نامی کتاب سے بہت کم ہی واقف ہوں گے۔ "مسلم پرسنل بورڈ” اور ” سنی پرسنل لا بورڈ ” کا معاملہ تو ابھی حال کا ہے یہ بھی آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے۔اس طرز پر بہتیرے مثالیں ہیں ،خیر جانے دیجئے جتنی بھی مثالیں دی جائیں اس سے اپنا ہی چہرہ داغدار ہوگا۔ان مثالوں کی وضاحت سے فقط میں اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا مزاج مقلدانہ ہے قائدانہ نہیں۔ خدا جانے ہم سنیوں کی یہ سوچ کب اور کیسے بدلے گی ہم لوگ اس کا بہتر متبادل لفظ تلاش کرنے کی جرأت بھی نہیں کرتے اسی میں سنی کے اضافے کو ہی بہتر جانتے ہیں۔ہم سلطان الواعظین، صاحب تصانیف کثیرہ ،حضرت علامہ عبدالمصطفی اعظمی علیہ الرحمہ والرضوان کے بے حد شکر گزار ہیں کہ انہوں نے سنی کا اضافہ نہ کرکے باضابطہ بہشتی زیور کی طرز پر ایک کتاب جنتی زیور لکھی جو رب تعالی کے فضل وکرم سے عوام وخواص میں بے حد مقبول ہوئی۔اس طرز پر سنی طبقہ سے جو بھی کام ہوگا ان شاءاللہ مقبول ہوگا،اس کے دوررس نتائج ہوں گے کاش ہم اس پہلو پر غور تو کرتے ۔
جلسوں میں ہمارے یہاں جابجا وبے جا فلک شگاف نعروں اور طویل نقابتوں کا جو رواج ہے وہ وہاں نہیں ۔ نعرے ضرور لگتے ہیں مگر اسٹیج سے ایسی کوئی مہم نہیں چلائی جاتی ہے۔جنوبی ہند میں لہک کر،مٹک کر،چھٹک کر، جھٹک کر،سبحان اللہ کہنے کا رواج نہیں ،سامعین خود اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہیں ۔شمالی ہند میں جو نعرۂ تکبیر ورسالت کے ذریعہ مقررین کی تقریروں کو کامیاب بنانے کا رواج ہے وہ وہاں بالکل دیکھنے کو نہیں ملا۔ کہاجاتا ہے اور صرف کہا ہی نہیں بلکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کیرلا میں تعلیم سوفیصد ہے۔ ہمارے یہاں جو دارالعلوم اور جامعہ کھلنے کا رواج ہے وہ ہمارے لئے باعث شرم ہے۔وہ کیرلا جاکر ان مدارس کو دیکھیں جہاں سکنڈری تک تعلیم ہے اور اپنے مدارس کو دیکھیں پھر گریبان میں منہ ڈال کر فیصلہ کریں کہ ہم اپنے مدرسوں کو دارالعلوم کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ شمالی ہند کے چند بڑے مدرسوں کو چھوڑ کر نہ تو کوئی طلبہ کی معیار بندی ہےاور نہ ہی درجہ بندی ،جہان فقط حروف تہجی کی پڑھائی ہوتی ہے وہ بھی اپنے دوکمروں پر مشتمل عمارت کو جامعہ لکھتے ہیں ،اور جہاں بخاری شریف ،مسلم شریف اور صحاح ستہ کی تعلیم ہوتی ہے وہ بھی دارالعلوم اور جامعہ کہلاتے ہیں اورجہاں اعلی تعلیم کا نظم نسق ہے انہیں بھی جامعہ کہا جاتا ہے،جیسے ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد ایسارواج صوبہ کیرلا میں بالکل نہیں جس طرح ہمارے یہاں ہے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو سہی سوجھ بوجھ کی توفیق دے۔

ماخوذ از سفر نامۂ ایران مصنفہ ڈاکٹر غلام یحی انجم ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے