تحریر: سید فضیل اشرف
منطق میں حد اوسط گرانے سے نتیجہ نکلتا ہے اور مذکورہ عنوان اُن حد اوسط کا تقاضہ کر رہا ہے جن کے گرانے سے اتحاد بین المسلمین کا نتیجہ بر آمد ہوگا۔
خلیل جبران جو کہ دنیائے عربی ادب کی ایک نمایاں شخصیت ہے اس کے مجموعہ ” الارواح المتمردة ” کے تعلق سے یہ بات مشہور و معروف ہے کہ اس مجوعے کی اشاعت کے بعد دنیائے عرب میں ہل چل مچ گئی , لوگ جبران سے بیزار ہو گئے ، اس کا گرجاؤ میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ، یہاں تک کہ لبنانی حکومت بھی ناراض ہو گئی اور اس کے ان تمام نسخوں کو ، جو کہ شام و لبنان پہنچ گئے تھے نذر آتش کرا دیا –
لوگوں کا اس طرح متنفر ہو جانے کا سبب یہ تھا کہ جبران کی تحریروں میں نحوى ، صرفی اور لغوی غلطیاں پائی جاتی تھیں، جسکا بعض ادبا نے دفاع بھی کیا اور بعد میں جبران نے نحوى قاعدوں کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ۔ (ماخوذ از عربی زبان و ادب سے متعلق عربی اور اردو مقالات)
اب ذرا غور کریں کہ نحوى غلطیوں اور انکا مذاق اڑانے کی وجہ سے کتابوں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے اور ایسا کرنے والے پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں تو اگر فیس بک پر لکھے جانے والے اُن تمام مقالات کو جو کسی شخصیت یا خانقاہ کے خلاف نہایت تلخ لہجہ میں لکھے جا رہے ہیں ، ایک کتابی شکل میں شائع کر دیا جائے تو نہ جانے عوام اُن مقالہ نگاران کا کیا حال کریگی یہ تو اللہ اور اسکے رسول ہی بہتر جانے ۔
ابھی کچھ عرصے پہلے ایک عزیز سے انہیں لوگوں کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی تو انہوں نے بہت اچھی بات کہی کہ ” سید صاحب ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگ جاھل ہیں ، یہ بہت با صلاحیت لوگ ہیں اور قوم میں سدھار چاہتے ہیں لیکن انکا تلخ لہجہ ہی انکی بنیادی کمزوری ہے ورنہ آپ غور کریں تو انکی بات کوئی غلط نہیں ہوتی ہے ۔” (ملخّصا)
میرے خیال سے ان حضرات نے تلخ لہجہ کو اس لیے اختیار نہ کیا ہوگا کہ ” تلخ مضمون ہوگا تو لوگ متوجہ ہوں گے ” بلکہ اس غیر معقول اختیار کا سبب وہی ہو سکتا ہے جسکی وجہ سے خلیل جبران نے نحوى قواعد کا مذاق اڑانا شروع کر دیا تھا یعنی لوگوں کا شدت پسندانہ رویہ اور یہ رویہ ہندوستان میں بے جا تکفیری فتاویٰ میں دیکھا جا سکتا ہے جو ایک الگ تاریخی و اصولی موضوع ہے ۔
مذکورہ بالا سطور سے ہمیں دو موانع اتحاد کا پتہ چلتا ہے ۔
(۱) حق گوئی يا نصیحت آمیز گفتگو میں تلخ لہجہ
(۲) بے جا تکفیری فتاویٰ
لطائف اشرفی میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ "۔
جونپور میں حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمة الله تعالى علیہ سے شیخ عبد اللہ زاہدی رحمة الله تعالى عليه ملاقات کے لیے آئے در ایں حال کہ وہ کوئی نشہ آور چیز کھائے ہوئے تھے جس کے سبب انہوں نے ایسی باتیں کی جو آداب سے خالی تھیں اور مخدوم سمنان کا خاطر شریف ملحوظ نہ ہو پایا بلکہ صورت حال منہ پھیرنے تک پہنچ گئی، تو مخدوم سمنان رحمة الله تعالى عليه نے چاہا کہ ذرا نظر تیز کریں اور تصرّف ظاہر فرمائیں کہ اتنے میں حضرت شیخ فخر الدین زاہدی رحمة الله تعالى عليه کی روحانیت نمودار ہوئی اور تصرّف نہ فرمانے کی التجا کی در این حال کہ وہ اپنی نورانی داڑھی کو پکڑے ہوئے تھے اور یہ فرمایا کہ ” ہر گز (تصرّف نہ فرمائیں) ہماری روحانیت اُن کے درمیان میں ہے ۔” پھر مخدوم سمنان نے فرمایا کہ ” ہر چند کہ وہ معرض تصرّف میں آ چکے تھے لیکن میں نے چھوڑ دیا۔”
یہ واقعہ ” اکابر کی اولاد کی تعظیم کا ذکر ” کے عنوان کے تحت ذکر ہے ، اس واقعہ سے قبل یہ بات ملفوظ ہے کہ ” اکابر اور بزرگوں کی اولاد و اعقاب کی تعظیم و تکریم کا ذکر ہوا ۔ نیک بختی کی بہترین علامت اور بزرگی کی خوب ترین شان اس گروہ کی تعظیم کرنا ہے کہ اولاد کی تعظیم اجداد ہی کی تعظیم ہوتی ہے بلکہ اکابر کی روحانیت اولاد کے ہمراہ ہوتی ہے ۔ ” (ماخوذ از لطائف اشرفی، جلد سوم)
مذکورہ بالا سطور سے دو چیزوں کا پتہ چلتا ہے اوّل- یہ کہ اکابرين کی اولادیں خواہ وه چاہے جیسی ہوں لیکن معظّم و مکرم ہیں اور دوم یہ کہ ہر زمانے میں اولاد کی تعظیم نہ کرنے والے لوگ پائے جاتے رہے ہیں اسی وجہ سے یہ عنوان بھی لطائف اشرفی میں آیا ہوا ہے تاکہ لوگ بد عملی میں ملوث نہ ہو جائیں ۔
دور حاضر کا تو حال یہ ہے کہ اولاد کے اندر منکسر المزاجی ہونے کے بجائے انا پرستی کا پہلو پایا جاتا ہے ۔ (نوٹ : یہاں کل اولاد مراد نہیں) مثلاً اگر کوئی شخص اُن سے ملنے آیا اور دست بوسی نہ کی بلکہ مصافحہ پہ اکتفا کر لیا تو اس شخص پہ بد اخلاقی اور گستاخی کی مہر لگ جاتی ہے اور اسے شکن آلود جبینوں سے دیکھا جاتا ہے پھر یہیں سے جبرا تعظیم کرانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے مذکورہ شخص جیسے لوگ بد زبانی اور بغض و عداوت پہ اتر آتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے وہ تو عوام میں اور سوشل میڈیا پہ سب عیاں ہے ۔
حالانکہ اولادوں کو چاہیے کہ اُن کے پاس جو روحانی مدد موجود ہے اس کی مدد سے دین کی اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلیں اور انا پرستی اور مال و زر کی چاہ میں نہ رہیں ، اور جو لوگ بد زبانی اور بغض و عداوت پہ اتر آتے ہیں اُنہیں چاہیے کہ وہ اپنی عقیدت کو بچائیں تا کہ خوار نہ ہونا پڑے ۔
یہ بات مسلّم الثبوت ہے کہ اگر کل کے کسی ایک جز میں خرابی پیدا ہو جائے تو بقیہ اجزاء میں خرابی پیدا نہیں ہوگی لیکن اگر کل میں خرابی پیدا ہو جائے تو تمام اجزاء میں خرابی پیدا ہو جائیگی اور اکابرین کی اولادیں ملت کے لیے کل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
مذکورہ بالا سطور سے ہمیں دو موانع اتحاد کا پتہ چلتا ہے ۔
(۱) گھر والوں کی انا پرستی
(۲) در والوں کی بغض و عداوت
ابن تیمیہ یہ وہ نام ہے جو محتاج تعرف نہیں ، ابن تیمیہ کا جب عروج تھا تو اہل علم اسے داد و تحسین سے نوازتے تھے اور وہ اپنے علم کے جوہر لُٹاتا تھا لیکن بعد میں اسکے نئے اور باطل افکار و عقائد سے سب بیزار ہو گئے اور اسے گمراہ قرار دیا گیا لیکن ان تمام تر مخالفتوں کے باوجود وہ اپنے نظریات میں آخر وقت تک جامد رہا ۔
جمود فی الفکر کا یہی نظارہ ہمیں ہندوستان کے محققین میں نظر آتا ہے جس کے سبب اُن کے معتقدین تنازع فعلان کی طرح اپنی اپنی تحقیق پر عمل كرانے پہ تلے رہتے ہیں جسکا نتیجہ ” گمراہ ، بد دین اور آزاد مولوی ” جیسے فتاویٰ کی شکل میں ملتا ہے ۔
حالانکہ علماء کو چاہیے کہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے قول سے رجوع کرنے کی ہمت رکھیں تا کہ تنازع نہ ہو ۔
مذکورہ بالا سطور سے ہمیں دو موانع اتحاد کا پتہ چلتا ہے ۔
(۱) جامد فکر (فیصلہ)
(۲) لوگوں سے جبرا عمل کروانا
خلاصۃ کلام یہ نکلا کہ جو بھی اسباب موانع اتحاد واقع ہو رہے ہیں (خواہ ان میں سے کوئی سبب ہمارے ہی ذریعے کیوں نہ وجود میں آیا ہو) اُنہیں ہم حتٰی المقدور ختم کرنے کی کوشش کریں تا کہ "اسلام، مسلمان اور اہل سنت و الجماعت” کا مفہوم تاریخ و الفاظ میں نہ رہ جائے۔
اور جو اسباب رہ گئے ہیں تو: عیاں را چہ بیاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تیری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تیری تقریر سے