ازقلم: شمیم رضا اویسی امجدی مدینۃ العلماء گھوسی
شمال مشرقی ہندوستان کی سرحدی ریاست تری پورہ میں ہندو شرپسند عناصر کی جانب سے گزشتہ کئی روز سے مسلمانوں کے خلاف جبر و تشدد اور حیوانیت کا خوفناک سلسلہ جاری ہے، وہاں کا ہر خطہ ماتم کدہ بنا ہوا ہے، انگنت جانیں تلف کی جا چکی ہیں، بچوں کو یتیم اور عورتوں کے سہاگ کو اجاڑا جا رہا ہے، مسلمانوں کی آنکھوں سے مستقبل کا خواب چھینا جا رہا ہے، ہندو دنگائی مسلم بستیوں میں ببانگ دہل مسلمانوں کے قتل کا اعلان کرتے پھر رہے ہیں، اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز نعرے لگا کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کر رہے ہیں، مرد و خواتین کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک برتا جا رہا ہے انہیں ہر طرح سے ہراساں کر انکے گھروں پر نحوست آمیز بھگوا جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں، مساجد کے اندر خنزیر کا گوشت پھینکا جا رہا ہے، بے شمار علماء و ائمہ کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے اور ہندوتوا مظاہرین کے ہاتھوں اب تک کل 18 مساجد میں توڑ پھوڑ، 8مساجد کو نذر آتش اور درجنوں مسلم گھروں کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے،
لیکن افسوس یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ابھی تک سرکار کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف کوئی بھی رد عمل دیکھنے کو نہیں ملا، ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ نہ تو اب تک کسی کی گرفتاری ہوئی اور نہ ہی کسی دنگائی پر کوئی قانونی کارروائی بلکہ اگر مسلمان اپنے دفاع میں احتجاجی مظاہرے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو پولیس فوراً دفعہ 144 نافذ کر دیتی ہے، اخباری رپورٹ کے مطابق مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جیسے ہی دنگائی مساجد کو جلا کر چلے جاتے ہیں، ویسے ہی پولیس 144 لگا دیتی ہے تاکہ مسلمان کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکیں، مزید مسلمانوں کو ہی پرساسن زد و کوب کرنے میں مصروف ہے گویا حکومت کی طرف سے ان دنگائیوں کو بھر پور حمایت اور سپورٹ حاصل ہے، آر ایس ایس کے اشارے پر تھرکنے والا بکاؤ میڈیا جو ہمہ وقت ذرا ذرا سی بات پر واویلا مچائے رہتا ہے آج وہ بھی ہندو آتنکوادیوں کا ننگا ناچ دیکھ کر اندھا، گونگا اور بہرا بنا ہوا ہے،
لہٰذا ایسے نازک ترین ماحول میں پورے بھارت کے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی بےحسی کو توڑتے ہوئے، خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے کے بجائے تری پورہ میں ہو رہے مسلمان بھائیوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف کوئی عملی اقدام کریں، یاد رکھیں کہ اسلام نے تاکیدی حکم دیا ہے کہ اگر کسی پر ظلم ہو رہا ہو تو ظالم کا ہاتھ پکڑا جائے اور مظلوم کی حمایت کی جائے، اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ،
"لوگ جب کسی پر ظلم کرتے ہوئے دیکھیں پھر اسکا ہاتھ نہ پکڑیں تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسکی سزا تمام لوگوں کو دے” (ابو داؤد شریف :4338)
سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہ صرف ظلم کی مذمت فرمائی ہے بلکہ خود اس سلسلے میں عملی اقدامات پیش کر کے امت کو یہ درس دیا ہے کہ جو شخص ہماری ہمدردی اور مدد کا محتاج ہو ہمیں اسکی مدد ضرور کرنی چاہئے چنانچہ روایت کے اندر ہیکہ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ظا ہری بعثت سے پہلے مظلو موں کی مدد کے لیے ایک معاہدہ فر مایا تھا جب عرب میں لوگوں کی جان و مال،عزت و آبرو محفوظ نہ تھی، ظالموں کا ہاتھ پکڑ نے والا کوئی نہ تھا ، لوگ ظلم ہوتا ہوا دیکھتے لیکن مظلوم کی مدد نہ کرتے، ظلم کا بازار گرم تھا لیکن اسے سرد کرنے والا کوئی نہ تھا، حرم شریف مکہ جیسے شہر کی حالت بھی اچھی نہ تھی، اس صورت حال سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت تکلیف،قلق اور صد مہ رہا کرتا تھا اسلیئے آپ نے اس ظلم و جبر کے خلاف عملی اقدام پیش کرنے کا ارادہ فرمایا اور اسکے لیئے آپ نے بعض درد مندوں کو مشورہ کے لیے عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع کیا اور یہ معاہدہ کیا کہ ظلم و زیادتی کو ہر قیمت پر روکا جائے گا، اس کے لیے چاہے جو بھی قر بانی دینی پڑے، کسی بھی شخص خواہ وہ مکہ کا رہنے والا ہو یا باہر سے آیا ہوا ہو، اس پرظلم نہیں ہونے دیا جائے گا اور مظلو موں کی حتی الامکان مدد کی جائے گی، تاریخ میں اس معاہدہ کو معاہدہ ٔ جدعان کہتے ہیں، یہ معاہدہ آپ کی ظاہری بعثت سے پہلے ہوا تھا لیکن بعثت کے بعد بھی آپ اس معاہدہ کی تعریف کرتے ہوئے کافی خوش ہوتے اور فرمایا کرتے کہ” مجھے اس معاہدے سے غائب رہنا پسند نہیں اگر چہ اسکے بدلے سرخ اونٹنیاں دی جاتیں ” مزید فرماتے کہ "اگر اسلام کے آنے کے بعد بھی مجھے اس کی دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کروں گا” (فتح الباری553/4)
سیرتِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ واقعہ ہمارے لیئے بہترین پیغامبر ہیکہ جب بھی کبھی ظالم اپنے ظلم کی حدیں پار کرے ہمیں اسکے خلاف سربکف ہو کر میدانِ عمل میں آ کر محاذ آرا ہو جانا چاہیے بلکہ ہندوستان جیسے ملک میں مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں اور سیاسی اعتبار سے جس تنہائی کا شکار ہیں ہمیں چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ظالموں کی ظالمانہ پالیسیوں کو طشت از بام کریں اور اس وقت تک خاموش نہ بیٹھیں جب تک ظالم اپنے ظلم سے یکسر باز نہ آ جائیں۔
اللہ رب العزت ظالموں کو غارت کرے اور امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے، آمین