ازقلم: طارق انور مصباحی
بھارت میں بہت سی مذہبی اقلیتیں ہیں۔ان اقلیتوں نے کبھی نہیں کہا کہ ہمارا دھرم خطرے میں ہے۔
نہ پارسیوں نے کبھی ایسا کہا نہ سکھوں نے۔نہ جینیوں نے ایسا کہا,نہ بدھشٹوں نے۔
پھر جس دھرم کے پیروکار بھارت میں سب سے زیادہ مانے جاتے ہیں,وہ خطرے میں کیسے ہے؟
نیز اس دھرم کو خطرہ کن لوگوں سے ہے؟
دراصل بھارت میں دلتوں,آدی واسیوں اور بیک ورڈ طبقات کو زبردستی ہندو بنا لیا گیا ہے۔اب یہ لوگ پڑھ لکھ کر حقائق سے واقف وآشنا ہوتے جا رہے ہیں اور اپنے ہندو ہونے کا انکار کر رہے ہیں۔
ایسی صورت میں لازم ہے کہ مسلم ہندو منافرت پھیلا کر دلتوں,آدی واسیوں اور بیک ورڈ طبقات کو ہندو بنا کر رکھا جائے۔فرقہ وارانہ فسادات کے وقت یہ لوگ اپنی جان ومال کے خوف سے خود کو ہندو کہنے لگتے ہیں۔
اسی طرح مذہبی منافرت پھیل جانے کے سبب بھی لوگ خود کو اکثریتی طبقہ سے جوڑ لیتے ہیں۔اور اسی میں امن وسکون محسوس کرتے ہیں۔
ہندو دھرم کو خطرے میں بتانا ایک گہری سازش کا نتیجہ ہے۔ہندؤں کی اکثریت بتانا بھی محض ایک جھوٹ ہے۔اصل ہندو آرین قوم ہے۔بھارت کی مول نواسی اقوام(شودر اقوام)کو 1909 میں مارلے منٹو ریفارمز:1909کے نفاذ کے وقت ووٹ بینک کی خاطر ہندو تسلیم کر لیا گیا ہے,ورنہ آج تک ان لوگوں کو مندروں میں بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
اب ایک آدی واسی خاتون(دروپدی مرمو سابق گورنر آف جھارکھنڈ)کو صدر جمہوریہ بنانے کی تجویز بھی اسی پلاننگ کا حصہ ہے کہ آدی واسی دھرم کو بھی ہندو دھرم کا ایک حصہ مان لیا جائے۔کئی سالوں سے آدی واسی قوم احتجاج کر رہی ہے کہ ہم لوگ ہندو نہیں ہیں۔مردم شماری کے وقت مذہب کے کالم میں آدی واسی دھرم کا بھی نام دیا جائے۔جھارکھنڈ کی ریاستی حکومت بھی اس مطالبہ میں شریک ہے۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔