ایران اور اسرائیل کا تنازعہ محض دو ریاستوں کے درمیان کشیدگی نہیں، بلکہ یہ عالمی سطح پر ایک ایسا سلگتا ہوا مسئلہ بن چکا ہے جس نے خطے میں سیاسی، مذہبی اور اقتصادی نظام کو جکڑ رکھا ہے۔ اس تنازعے کی گہرائی میں نہ صرف نظریاتی اور مذہبی اختلافات ہیں، بلکہ بین الاقوامی طاقتوں کی حکمت عملیوں اور مفادات کا تصادم بھی نمایاں ہے۔
اس تنازعے کی بنیادی جڑیں نظریاتی اور علاقائی دشمنی پر مبنی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران خود کو مظلوم فلسطینیوں کے حمایتی اور اسلامی دنیا کے محافظ کے طور پر پیش کرتا ہے، جبکہ اسرائیل اپنے قیام اور سکیورٹی کے لیے مغربی طاقتوں، خصوصاً امریکہ کا حلیف ہے۔ یہ نظریاتی تضادات اور اقتدار کی کشمکش اس تنازعے کو مزید پیچیدہ اور طویل المدت بنا دیتے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر، ایران اور اسرائیل کا یہ تنازعہ مختلف عالمی طاقتوں کو بھی اپنی طرف کھینچ لاتا ہے۔ روس اور چین ایران کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ دوسری جانب، امریکہ اور یورپ نے اسرائیل کی حمایت میں اپنے سفارتی، اقتصادی اور عسکری تعاون کو مضبوط بنا رکھا ہے۔ یہ دو بڑی طاقتوں کے بلاک مشرق وسطیٰ میں سیاسی عدم استحکام کو بڑھاتے ہیں اور علاقائی جنگ و جدل کو ہوا دیتے ہیں۔
اقتصادی پہلو سے دیکھیں تو ایران پر عائد کی گئی پابندیاں عالمی معیشت پر گہرا اثر ڈال رہی ہیں۔ خاص طور پر تیل کی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ اور اشیاء کی ترسیل میں رکاوٹیں عالمی معیشت کو متاثر کر رہی ہیں۔ اس تنازعے نے بین الاقوامی منڈیوں میں غیر یقینی صورتحال کو فروغ دیا ہے اور مختلف ممالک کے تجارتی تعلقات میں تناؤ پیدا کیا ہے، جس سے عالمی اقتصادی نظام متاثر ہو رہا ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ایران اور اسرائیل کا تنازعہ بین الاقوامی سیاست اور معیشت پر گہرے اور پیچیدہ اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اس کے حل کے لیے ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر خطے میں امن کے قیام کو ترجیح دیں۔ یہ تنازعہ تبھی حل ہو سکے گا جب تمام فریقین سنجیدگی سے بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
از قلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار
شائع کردہ: 29 اکتوبر، 2024ء