کیا کچھ نہیں دیکھا نا اہلوں کو منصب ملنا، چور بنے رکھوالے، سارے نیتا جاہلِ مطلق انگوٹھا ٹیک ستا میں، چائے بنانے والے اور گائے کا پیشاب پینے والے بنے پارلیمنٹ کے اہم ترین اراکین ، اس کے مابعد ہونے والے مفسدات قابلِ تذکرہ ہیں مثال کے طور پر گجرات کا دنگا، ریپ کیس کے حلقے(ratio) کا دراز ، اور ریپسٹ کا فرار ہونا۔
مزے بات تو یہ کہ تحویل شدہ مجرمین باعزت بری، مسلمانوں پر ظلم و مظالم، کئی اضلاع میں بے گھر کئے گئے ہندوستانی، بڑھتے ریپ، چوری، ڈکیتی اور قتل کے کیس، محکمے میں بڑھتے رشوت کی شورش، حقِّ مساوات کی خاطر تین طلاق کے معاملے میں رد و ابدال، عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے بے ڈھنگی قوانین، بے پردگی کی راہ ہموار کرنا اور پردے سے مسئلہ۔
حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والا آتنکوادی، شہریت ثابت کرنے اور دیش نکالا کرنے کی خاطر طرح طرح کے قوانین مثلا سی این اے، این آر سی وغیرہ، مدارس کی تعلیمات پر انگشت نمائی اور مدارس کو اپنا ہدف و نشانہ بنانا، دھرم پرستی کو فروغ دینا اور ایک دوسرے کے دلوں میں عداوت و کدورت کا بازار گرم کرنا۔
اسکولوں میں پیپر لیک کروانا، اسکولوں کالجوں میں بے جا حجاب پر پابندی عائد کرنا، مسلمانوں کو مارنا پیٹنا، رام نام کے نعرے بازی پر جاں بخشی نہیں تو جان سے جانا۔ سنویدھان کی خلاف ورزی کرنا ساتھ ہی اسے تحریف و تنقید کا نشانہ بنانا، علمائے کرام کو بلا اثباتِ جرم مجرم قرار دینا اور مجرموں کو ایک ایک کر باعزت بری کردینا۔
بھگوا لو ٹریپ جیسی قبیح و فظیع تنظیم کے ذریعہ ارتداد کا بازار گرم کرنا، ہم دو ہمارے دو دو کا نعرہ لگانا اور قدرت کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پابندی عائد کرنا، ناجائز رشتہ کو جائر اور لیگل قرار دینا، ہم جنسی تعلقات کو اور ٹرانسجینڑد جیسی بلا کو اپروچ کرنا۔ اور اس کو سرکاری اجازت دینا، شاہین باغ کے دھرنے کا سانحہ، پولیس کی نااہلی کے ساتھ ساتھ ظلم و جور کے واقعات۔
کرونا وائرس ویکسین ٹیسٹینگ اکسپیریمینٹ اور اس کی پیمائش کا خلاصہ، لاکڈاون کا پس منظر، مدارس کو غیر قانونی قرار دینا، تعلیمِ مدارس میں ترمیم بجائے تعلیمی سسٹم درست کرنے کے۔ ائمہ کرام علمائے عظام کی قتل و غارتگری، داڑھی ٹوپی والوں پر ظلم، ملک کے خزانوں سے اپنی جیب بھرنا۔ کسانوں کے بجائے فراڈ کرنے والوں کے لون معاف کرنا۔
نوٹ بندی کسی سازش کے تحت کرنا، ٹیکس اور مہنگائی کا آسمان چھونا، غریب کا مزید غریب اور مالدار کا مزید مالدار ہونا، بے روزگاری کا تانڈو اور ننگا ناچ، مذہب وملت کے نام پر پالیٹکس کھیلنا، پترکاروں کا اپنا ضمیر فروخت کردینا اور من موجی خبریں ارسال کرنا، لوگوں کو بے وقوف بنانا، ملک کی سمپتی بیچ دینا یا لیز پر چڑھا دینا، اوپر سے لیکر نیچے تک گھوس خوری اور رشوت کیشی کے سلسلے کا دراز ہونا وغیرہ مزید نا جانے کیا کیا؟۔
حد تو تب ہوگئی کہ ہمارا "اللہ اکبر” بھی کہنا اپنی عبادت گاہوں میں جرم قرار پائے، اور مخالفین کا رام نام کی نعرہ بازی کرنا مسجدوں میں لیگل، واہ رے عدلیہ، ہائے یکطرفی فیصلہ کی حاملہ حکومت۔ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہم پر دہشت گردی کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔ اور وہ سرِ عام جرم کریں اور عدلیہ، ملک کی حکومت بھی ان کے ساتھ ہائے ظالم !!!
ابھی کچھ دنوں قبل بہرائچ اور بھی دیگر اضلاع میں واردات ہوئے ہیں مگر اس کو ذکر کے ساتھ خاص کرتا ہوں۔ آپ کو اس کی بابت بخوبی علم ہوگا ہی، بس اس میں حکومت کی یکطرفی روش پر دھیان دیں، انکاونٹر کیا گیا مسلمانوں کا، دکان و مکان نظر آتش ہوئیں مسلمانوں کی، ابھی بلڈوزر چلا ہمارے بھائیوں کے گھروں پر یہ کہہ کر کہ سارے گھر اوید ہیں۔ اس کے برعکس جو حقیقت میں دنگائی ہیں انہیں کھلی چھوٹ ہے، کسی کے یہاں بھگوا لہرائے یا اسلامی جھنڈے کو نوچ ڈالیں۔ جا بجا مسلمانوں کی پروپرٹیز کو نظرِ آتش کریں۔
اسی طرح کے کروڑوں حوادث ہیں جو شر پسندی کی علامت ہیں۔ اور میں ان کی تبیین سے قاصر، دل روتا ہے ان حوادث پر، ظاہر ہے کہ ہماری زندگی کی شمع ایک طوفان کے منجدھار میں پھڑپھڑا رہی ہے، اور کب بجھ جائے اس کا کوئی اندازہ نہیں۔
اور کیا ہی عجیب فلسفہ ہے اس حیاتِ مستعار کا، کہ زندہ تو ہیں، لیکن زندوں کی سی بات نہیں۔ جی تو رہے ہیں، مگر زندگی کا احساس نہیں۔ اگر حقیقت و صحیح معنوں میں ہم زندہ ہوتے تو ضرور اپنی غیرت پہ مر مٹنے کا جذبہ ہمارے اندر جاگزیں ہوتا۔ زندوں کے سے احساسات و عناصر ہم میں موجود ہوتے۔ تماشابازوں کی تماشا آرائی اور مخترعین کی اختراع و تجدد کے تماشائی بننے کے بجائے ہم اپنی مہرِ سکوت توڑ کر لبِ خموشاں کو جنبش ضرور بالضرور دیتے۔ مگر یاں بھی معطل عاطل۔
اب تو یہی بات حاشیہ ذہن پر گردش کرتی رہتی ہے کہ کیا کچھ دیکھ لیا اور کیا کیا باقی ہے،،،،،؟؟؟،،،،،،
اےمیری قوم تو اگر اپنا وقار چاہتی ہے تو یکجہتی اور اتحاد سے کام لے۔ ہر شعبہ میں اپنی پکڑ مضبوط کر، اور جہاں اسلام اور مسلمانوں کی بات آئے یکجا ہوجا۔ تیرا اتحاد ہی دشمن کے لئے سمِ قاتل ثابت ہوگی۔(انشاءاللہ) اللہ ہماری حفاظت فرمائے آمین۔
راقم الحروف: محمد اختر رضا امجدی
متعلم:- جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو