تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ، مبارک پور اعظم گڑھ یوپی
مکرمی : اس بار کشیدگی کی وجہ ایک ایسا ’سپر ڈیم‘ کی تعمیر ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ انڈیا میں کچھ لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر چین نے انڈیا کی سرحد کے قریب اتنا بڑا ڈیم تعمیر کر لیا تو چین اسے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے۔ چین نے اعلان کیا ہےکہ وہ تبت سے نکلنےوالے یرلانگ ژانگبو دریا پر ایک ڈیم تعمیر کرنے کا اردہ رکھتا ہے۔ اس ڈیم کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت دنیا میں کسی بھی منصوبے سے زیادہ ہے۔۔ کچھ اندازوں کے مطابق اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 70 ہزار میگاواٹ فی گھنٹہ سے زیادہ ہے جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والے تھری گورجز ڈیم سے بھی تین گنا ہے۔ چین کی کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان سمجھے جانے والے اخبار گلوبل ٹائمز نے پاور کنسٹرکشن کارپوریشن آف چائینہ کے چیئرمین یان زیانگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ دنیا میں اس جیسے منصوبے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ چین کی طرف سے دریائے یرلانگ ژانگبو پر تعمیر کے اعلان کے بعد انڈیا نے محتاط رویہ اپنایا ہے اور صرف اتنا کہا کہ وہ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے خبروں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ دریائے یرلانگ ژانگبو انڈیا میں براہماپترا کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہ انڈیا سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش تک جاتا ہے جہاں سے وہ سمندر میں داخل ہوتا ہے۔اس منصوبے کے بارے میں کافی عرصے سے چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں لیکن اب کیمونسٹ پارٹی کے حالیہ اجلاس میں جن منصوبوں کو اگلے پانچ برسوں میں مکمل کرنے کی منظوری دی گئی ہے ان میں یرلانگ ژانگبو ڈیم بھی شامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور انڈیا کے مابین پانی کی جنگ اگر چھڑ گئی تو یہ قابو سے باہر ہو سکتی ہے اور بنگلہ دیش کو اس سے بھی بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ ابھی تک اس ڈیم کے مقام کی تصدیق نہیں کی گئی ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہماچل پردیش کے اوپر اس موڑ پر تعمیر کیا جائے گا جسے گریٹ بینڈ کے طور جانا جاتا ہے۔ اس مقام سے دریائے یرلانگ ژانگبو ایک تیز چکر کاٹ کر ہماچل پردیش میں داخل ہوتا ہے جہاں اس کا نام براہماپترا میں بدل جاتا ہے۔
براہما پترا دریا انڈیا کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت کے دریاؤں میں بہنے والے مجموعی پانی میں براہماپترا کا حصہ 29 فیصد ہے اور جبکہ بھارت میں پن بجلی کا چالیس فیصد براہماپترا کے دریا پر منحصر ہے۔ ہندوستانی ماہرین ایسے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ چین کی طرف سے ایک ایسے مقام پر ’سپر ڈیم‘ کی تعمیر ایسی جگہ پر ہو رہی ہے جو اگر کسی قدرتی آفت کی وجہ سے ٹوٹ گیا تو چین کو تو اس سے کچھ نقصان نہیں ہو گا لیکن انڈیا کو اس کی بھاری چکانی پڑے گی۔اسٹرٹیجک امور کے ماہر پروفیسر براہما چیلنی نے چین کی طرف سے ڈیم کی خبر پر لکھا ’بھارت کو ہمالیہ میں چین سے زمینی خطرہ ہے، سمندر میں اس کی حدود پر تجاوز ہو رہا ہے اور تازہ خبر پانی کی جنگ کی یاد دہانی ہے۔انڈیا اور چین کے مابین پانی کی تقسیم کے حوالے کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ چین اور انڈیا نے 2002 میں پانی کے بہاؤ کا ڈیٹا ایک دوسرے سے شیئر کرنے کا ایک معاہدہ کر رکھا ہے لیکن انڈیا کا کہنا ہے کہ 2017 میں ڈوکلام کے علاقے انڈیا اور چین کے فوجوں کے مابین کشیدگی کے بعد سے چین نے وہ تعاون بھی ختم کر دیا ہے۔
تبت دنیا بھر میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے اور یہاں سے دس بڑے دریا بہتے ہیں جس پر افغانستان سے لے کر ویتنام تک دو ارب سے زیادہ لوگوں کا انحصار ہے۔ دنیا میں موجود پانی میں سے صرف اڑھائی فیصد میٹھا پانی ہے اور اس کا آدھے سے زیادہ حصہ قطبی شمالی کی برف میں پھنسا ہوا ہے۔ دنیا میں صنعتی ترقی کی وجہ سے میٹھے پانی کی دستیابی میں دن بدن کمی ہو رہی ہے۔ تبت سے نکلنے والے دس بڑی دریاؤں میں ییلو، یانگزی، میکانگ (چین) دریائے سندھ (پاکستان)، ستلج، براہماپترا (یرلانگ زنگبو) (انڈیا) سلوین (میانمار)، اراوادی (میانمار) اور دریائے بھوتی (نیپال) شامل ہیں۔ چین کو اپنی بالائی پوزیشن کی وجہ سے میٹھے پانی پر اسے اجارہ داری حاصل ہے۔ چین میں 1990 سے صنعتی ترقی عروج پر ہے اور اس کے شمالی علاقوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کرنے کی غرض سے اس 2002 میں قریباً 630 بلین ڈالر کی لاگت سے سالانہ 38 سے 48 ارب کیوبک میٹر پانی کے بہاؤ کو جنوب سے شمالی علاقوں کی طرف موڑنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں پہلے ہی ساٹھ فیصد کام مکمل کر چکا ہے