نتیجۂ فکر: عبدالمبین فیضی، مہراج گنج
پڑھوں نعت ان کی یہ خواہش مری ہے
بتاؤ یہاں سننے والا کوئی ہے؟
جسے ان کے در کی گدائی ملی ہے
فدا اس پہ دنیا کی شاہنشہی ہے
مٹی میرے دل کی ہر اک بے کلی ہے
تصور میں جب سے دیار نبی ہے
جو میں نے کیا ہے کبھی ذکر آقا
تو دل میں مرے ان کی الفت بڑھی ہے
یہی ہم نے سمجھا ہے لَوْلاک پڑھ کر
یہ دنیا نبی کی بدولت بنی ہے
مجھےشانِ کعبہ سےانکار ہے کب
مگر اس کا کعبہ مزارِ نبی ہے
وہ سورج کو پھیریں قمر چاک کردیں
انہیں رب سے قوت کچھ ایسی ملی ہے
وہ ذرہ بھلا کیوں نہ رشکِ قمر ہو
جسے پاۓ آقا سے نسبت ہوئی ہے
وہ جس پر ہے نازاں بہار جناں بھی
”نبی کی گلی ہے نبی کی گلی ہے“
نبی کے رخ والضحی کا ہے صدقہ
مہ و مہر انجم میں جو روشنی ہے
قصائد امیروں کے پڑھتا نہیں ہوں
ثنا خوانئِ شاہ عادت مری ہے
ہمیشہ پڑھوں کیوں نہ میں ان کی نعتیں
زباں جب مجھے ان کے صدقے ملی ہے
یہ ہے گیسوۓ مصطفائی کا صدقہ
معطر معطر مری زندگی ہے
ہمیں اس سے محفوظ رکھنا الہی
وبا جو زمانے میں پھیلی ہوئی ہے
برستا ہے اس پر سحابِ محمدﷺ!
اسی واسطےدل کی کھیتی ہری ہے
کہیں خواب میں کاش آکر شہِ دیں
سُنا ، نعت میری، جو تو نے لکھی ہے
اسی نے رقم کی ثنا ان کی فیضی
جسے مصطفی کی اجازت ملی ہے