ازقلم: خلیل احمد فیضانی
یک زمانہ صحبت با اولیاء بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
صبح تاباں سے لے کر شام درخشاں تک فقیروں کے ڈیرے(مزارات مبارکہ)
اپنے اندر گل بابونہ سی نکہت اور شب دیجور کے ستاروں سی جھلملاہٹ لیے غمزدوں,دکھیاروں کے لیے مرہم سازی کی سوغاتیں پیش کررہے ہوتے ہیں-
یہ کشش دار وبافیض آستانے ہمہ وقت ابر بارندہ کی طرح مخلوق خدا پرچھاۓ رہتے ہیں-
یہاں آکر عجب لطف محسوس ہوتا ہے…دل کی دنیا انقلاب پذیر ہوتی معلوم ہوتی ہے
روح اڑانیں بھرنے لگتی ہیں…..
..آنکھیں برسنے لگتی ہیں…..
.جسم کپکپانے لگتا ہے….
ایسا غیر متوقع انقلاب بارہا اولیاء اللہ کے آستانوں پر نصیب ہوتا ہے…
یہاں ذوق بندگی عطا کیا جاتا ہے…..
..شکوک کی وادیوں سے رہائی کا پروانہ نصیب ہوتا ہے….
کہسار علم و عمل میں گردش کا مزاج دیا جاتا ہے…
لاعلاج مریض یہاں سے دائمی شفا کا تمغہ لے کر لوٹتے ہیں…..
بے اولاد آرزو کرتے ہیں اور کچھ ہی ماہ میں ان کی گود ہری بھری ہوجاتی ہے…..
.قرض دار گریہ وزاری کرتا ہے;
ادا کے اسباب بن جاتے ہیں….
فرد واحد یا چند گنے چنے افراد کی حاجتیں پوری ہوئی ہوں; تو ایک ایک شمار کرانے بیٹھوں یہاں تو حال یہ ہے کہ ادھر کسی نے کامل عقیدت وپختہ عقیدے کے ساتھ استفاضہ کیا ادھر نگہ ولی کی تاثیر ہویدا ہونے لگی….
.ایسی ہویدا ہوئی کہ زندگی لالہ زار جنت نشان بن گئی-
.سعادت مند ہے وہ جس کی زندگی ان کی غلامی میں گزرے…
کورباطن ہے وہ جس کی زندگی ان پر نکتہ چینی کرنے میں گزرے…