خانقاہی نظام (قسط:۴)
ازقلم: خلیل احمد فیضانی
مذہبی مقدسات کا مس یوز کرنا اس زمانے میں عام ہوچکا ہے-اسٹیج ہو یا پھر درگاہ…سچ یہ ہے کہ ان پر قابض افراد اپنے مفاد کے لیے انہیں جی بھر کر استعمال کرتے ہیں,الا ماشاء اللہ… دنیوی جھگڑے آج کل اسٹیجوں پر آچکے ہیں….اور نفس کی عیاشی کی تکمیل کا ذریعہ آج کل درگاہیں یا پھر بزرگانِ دین کے اعراس بنتے جارہے ہیں…-
درگاہوں کے اندر کس قدر غیر شرعی رسومات انجام پذیر ہوتی ہیں…اس کا ہلکا سا خاکہ پیش کرنے کے لیے میں یہاں حضرت مولانا سجاد عالم مصباحی کے مضمون سے ایک دو اقتباس نقل کررہا ہوں,ان اقتباسات کی روشنی میں آپ بہ خوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آج درگاہوں کا ماحول کس قدر ناسازگار ہوتاجارہا ہے-
لکھتے ہیں:اولیاے کرام و اصفیاے عظام کے معتقدین,مصیبتوں کے مارے,زمانے کے ستے ہوے,دکھ درد جھیل کر ان مقدس بارگاہوں سے رحم و کرم کی بھیک مانگنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں- کویٔی اولاد کی بھیک مانگتا ہے تو کوئی مال و دولت کا طلب گار- کوئی شفا کا متقاضی ہے تو کوئی مقدمات کا فیصلہ چاہتا ہے- کوئی ظالم کے ظلم سے عاجز آکر دفع ظلم کا طالب ہے تو کوئی اپنوں سے پریشان اور کوئی غیروں سے آزردہ-ہر کس و ناکس اپنی حالت زار لے کر حاضر دربار ہوتا ہے اور ان بزرگوں کی خانقاہوں کے امین ان مصیبت کے ماروں کو بے دریغ لوٹنے کے چکر میں رہتے ہیں- پانچ سو اکیاون کی دو چادریں,پھول پیش کرنا ہے تو یہاں نذر پیش کرو,عرضی لگانے کا نذرانہ ایک سو ایک روپیہ ,فلاں بابا کا مزار ہے یہاں مقدمات کا فیصلہ ہوتا ہے,جو لاولد ہیں فلاں مزار پر چلے جائیں وغیرہ وغیرہ-اور طرفہ لطف یہ کہ ہر مزار بلکہ ہرچوکھٹ پر ایک سے بڑھ کر ایک بھکاری استحقاق مال و زر کا دعوی دار اور ہر ایک صاحب مزار کے لنگر اور انتظامات کے چندہ کا مدعی-حد تو یہ ہے کہ چوکھٹ چومنے کے لیے بھی آپ کو نذر پیش کرنا ہوگی-بعض دفعہ تو یہ فقراے ملت اس حد تک سطحیت پر اتر آتے ہیں کہ زائرین سے اندرون درگاہ ہی گالی گلوج تک کرلیتے ہیں اور بے ادبی کی ذرا پرواہ نہیں کرتے -چند مزارات مقدسہ کے علاوہ بیشتر مزارات پر لوٹ کھسوٹ کے نئے نئے طریقے رائج ہیں عوام کو گم راہ کرکے ان کی جیبیں خالی کرلی جاتی ہیں اور عوام کو احساس تک نہیں ہوتا -یہ فلاں صاحب کا مزار ہے,یہ فلاں بابا کا چلہ ہے بلکہ اب تو یہ بھی ہونے لگا ہے کہ یہ فلاں بابا کے کتے کی قبر ہے,یہ فلاں بابا کی بلی کا مزار ہے,یہ کڑاہ ہے,یہ کاجل ہے,یہ صندل ہے,یہ سرمہ ہے,یہ چراغ ہے-ان تمام امور میں پیسوں کی ضرورت ہے بنا نذرانہ تو مزار پر چڑھاے گئے پھول کی پتی بھی نہیں مل سکتی-حد تو یہ ہے کہ اگر آپ کو مزار کے خود ساختہ جھاڑو سے ماریں گے تو بھی نذرانہ لیں گے-
در اصل اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ آنکھیں بندکرکے علوم و معارف سے بے پراوہ جہالت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں-بزرگوں کے نام پر ان کے تقدس کو پامال کررہے ہیں-ہاں!ایک بات یہ ہے کہ یہ لوگ فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سے تو بہت دور ہیں مگر صاحبان مزار سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں کہ اگر قوال دوران قوالی کہہ دے-
جب تک بکے نہ تھے کوئی پوچھتا نہ تھا
تم نے مجھے خرید کر انمول کردیا
جیسے فلک پہ چاند ستاروں میں ایک ہے
ویسے ہمارا پیر ہزاروں میں ایک ہے
پھر تو مریدین و معتقدین کی جیبیں خالی ہوتی ہیں صاحبان جبہ و دستار جھوم جاتے ہیں اور قوال کو مالامال کردیتے ہیں لیکن اگر انہیں سے اللہ و رسول کے نام پر کوئی خدمت لینا چاہے تو دم نکلنے لگتا ہے حالاں کہ حقیقت تو ہے یہ کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے انہیں اتنا وافر حصہ ملا ہے کہ اگر ہر شہر میں ایک اسلامک یونیورسٹی قائم کرنا چاہیں تو ان کے لیے کوئی مشکل نہیں-لیکن رفاہی کاموں کے لیے ان کے تجوریوں کے دہانے نہیں کھلتے-
بزرگان دین کے اعراس مبارکہ لوگوں کے روحانی ذوق کی تکمیل اور صاحب مزار کے ایصال ثواب کی تقریب کے لیے منعقد ہونے چاہیے تھے مگر اس مقصد کےلیے اب منعقد نہیں ہورہے ہیں-
اعراس مبارکہ ان چادر فروشوں کے لیے تو گویا لوٹنے کا ایک سیزن بن چکے ہیں کہ مجاور سے لے کر محافظ تک ہر ایک لوٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہے…-حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جو چیز آج سے ٹھیک سو دو سو سال پہلے روحانی ذوق کی تکمیل کا ذریعہ تھی آج وہی چیز نفسانی ہوس کی تکمیل کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے…-
مفکر ملت علامہ اقبال علیہ الرحمۃ کا فرمایا ہوا صد فیصد سچ ثابت ہوا کہ:
"قم باذن اللہ” کہہ سکتے تھے جو,رخصت ہوۓ
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن!!!
یہ حالات علم دین سے دوری کی وجہ سے پیدا ہوۓ ہیں…جب کسی کے دل میں خوفِ خدا و عشق مصطفی نہیں ہوگا تو یقینی طور پر وہ اپنا مقصد دنیا پرستی اور ہوس پرستی کو بناۓ گا…اب جس کا جو شعبہ ہوگا اسی کا وہ مس یوز کرے گا-
بدقسمتی سے آج ان خانقاہوں پر وہ لوگ قابض ہوگئے جو علم دین سے بالکل نابلد ہیں تو اب ظاہر ہے کہ ان کے دلوں میں خشیت الہی کا جذبہ تو کار فرما نہیں ہوگا…اب لامحالہ یہ لوگ نفس پرستی کو اپنا مقصد بنائیں گے جس کی تکمیل کے لیے پھر انہیں مذہبی آثار کا مس یوز بھی کرنا پڑے تو نہیں چوکتے….-اللہ تعالی خیر کا معاملہ فرماۓ اور ان لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین