ازقلم: پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی
مطالعہ اور تحریر کو آپ عام بول چال میں پڑھنا لکھنا بھی کہہ سکتے ہیں. مطالعہ اور تحریر کا تعلق لازم و ملزوم کا سا ہے، گویا کہ یہ دو طرفہ لازمیت ہے؛ پڑھنے کے بعد لکھنا لازم اور لکھنے سے پہلے پڑھنا. جس نے صرف پڑھا اور پڑھے ہوئے کا نچوڑ قید تحریر میں لانے کا اہتمام نہ کیا، اسے اگر قدرت نے استحضار کی نعمت سے نوازا ہے تو سبحان اللہ ورنہ ذہن کا علمی خزانہ وقت گزرنے اور حالات بدلنے کے سبب کب خالی ہو جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا. ایسے ہی جس نے ایک وقت تک کثیر مطالعہ کرنے کے بعد تحریر کے میدان میں قدم رکھا اور پھر مسلسل لکھتا چلا گیا حتیٰ کہ کثرتِ تحریر نے قلتِ مطالعہ یا عدمِ مطالعہ تک پہنچا دیا تو نتیجے میں اچھا خاصا مفکر؛ محض صحافی یا لفظوں کا بازیگر بن کر رہ جاتا ہے. لہٰذا کوشش کریں کہ اگر آپ بہت کچھ لکھتے ہیں تو تھوڑا سا پڑھتے رہنے کی عادت بھی بنائے رکھیں اور اگر آپ ڈھیر سارا مواد پڑھنے کے شوقین ہیں تو تھوڑا بہت لکھ بھی لیا کریں، تاکہ فکر و نظر کا توازن برقرار رہے اور فطرت سلیمہ کی سطح میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے.
مطالعہ اور تحریر میں بیلنس بنا کر رکھیں
ازقلم: خلیل احمد فیضانی
حضرت مولانا پٹیل عبد الرحمنٰ مصباحی صاحب کی یہ تحریر بڑی کار آمد محسوس ہوئی…تو سوچا کہ اسی سے منسلک کرکے کچھ لکھا جاۓ.سو لکھنے کی اپنی سی کوشش کی اور حاضرخدمت ہے…-
بعض افراد ساری زندگی صرف پڑھنے پڑھانے میں رہ جاتے ہیں اور درسیات وغیرہ پڑھانے ہی کو صلاحیت کا سائن قرار دیتے ہیں..بنابریں اپنی فکر کو قیدِ تحریر میں لانے کی ذرہ برابر زحمت گوارا نہیں کرتے…جس کا ٹھیک ٹھاک نقصان انہیں یہ اٹھانا پڑتا ہے کہ ان کی فکر محدود ہوجاتی ہے اور اپنی فکر/بات/ کو رخ قرطاس پر منتقل کرنا ان کے لیے بڑا مشکل ہوتا جاتا ہے..یقینا یہ ایک قابل توجہ پہلو ہے..دوسرا قابل غور پہلو یہ کہ بعض احباب کو فرسودہ موضوعات پر لکھنے اور اپنی تالیفات کی تعداد بڑھانے کا اس قدر شوق ہوتا ہے کہ ہفتوں بلکہ مہینوں سالوں تک وہ صرف لکھتے ہی رہتے ہیں…ظاہر ہے وہ کوئی تحقیقی یا علمی کام تو کرتے نہیں ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت پڑے…بس یوں ہی دو چار کتابیں اُٹھائیں اور لکھنا شروع کردیا ..ایسے زود نویس مصنفین کا حال یہ ہوتا ہے کہ انہیں مبادیات تحقیق سے بھی شناسائی نہیں ہوپاتی ہے چہ جاۓ کہ انہیں نہایات تحقیق کا ادراک ہو…-
اس مضمون کو پڑھ کر ایک اور بات بھی میرے ذہن میں آئی کہ جو لوگ صرف پڑھتے ہیں لکھتے نہیں… انہیں بھی کچھ نا کچھ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جو لوگ صرف لکھتے ہیں پڑھتے نہیں انہیں بھی ایک گونہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے… تو جو لوگ بعد فراغت نا بلکل پڑھتے ہیں اور نا ہی لکھنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں ان بیچاروں کا کیا حال ہوتا ہوگا…ان کی خوابیدہ صلاحیتیں کس قدر ان پر ماتم کناں ہوں گی…..یقینا…انہیں اپنے حال زار پر ترس کھانے کی ضرورت ہے-
اسی مذکورہ صورت کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کی خاطر خیال آیا کہ مصباحی صاحب سے فون پر بات ہی کرلی جاۓ….بہرحال!رابطہ ہوا…دوتین مختلف موضوعات کے تعلق سے میں نے چند سوالات بھی پیش کیے…جن کے بڑی سنجیدگی سے جواب دیے اور ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوے کہا کہ مولانا صاحب! لوگ ہماری نگارشات کی تعریف کرتے ہیں جب کہ زمینی حقیقت یہ ھے کہ میں لکھتا ہوں آپ پڑھتے ہیں آپ لکھتے ہیں میں پڑھتا ہوں..تو جو طبقہ زمین پر کھڑا ہے اور صرف عصری علوم سے وابستہ ہے یا اپنی مادری زبان کے سوا کویٔی زبان انہیں سمجھ میں نہیں آتی..ان تک ہمارا پیغام کیسے پہنچے گا…اس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے-
کم سے کم 10% ہمیں اپنی مادری زبان میں لکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
راقم نے پوچھا کہ اپنا منفرد اسلوب کیسے قائم ہو؟
اور اپنی تحریر میں نکھار کیسے پیدا کیا جاۓ؟
تو جواباً فرمایا کہ اسلوب کا معاملہ یہ ہے کہ آپ جس مصنف کو بہ کثرت پڑھیں گے انہیں کا اسلوب آپ کی تحریر میں نظر آنے لگے گا…جیسے ایک ہفتے میں اگر آپ نے کسی ایک مصنف کی تین کتابیں پڑھ ڈالیں تو کم از کم تین سے پانچ دن تک ان کا اسلوب آپ پر سوار رہتا ہے اس دورانیے میں آپ جو لکھتے ہیں وہ تقریبًا تقریبًا اس اسلوب کے قریب جاتا ہے…
جیسے آپ کسی فن میں کچھ لکھنا چاہتے ہیں اور اس فن میں کسی کو ایکسپرٹ مانتے ہیں تو ان کو زیادہ سے زیادہ پڑھیں پھر لکھیں…آپ کا اسلوب کچھ حد تک ان کے قریب چلاجاۓ گا…
جیسے آپ تاریخ پر کچھ لکھنا چاہتے ہیں..اور علامہ یاسین اختر مصباحی کا تاریخ میں اچھوتا اسلوب ہے.
تو آپ پہلے دو چار دن تک علامہ کو پڑھیں پھر تاریخ پر کچھ لکھیں…اس سے آپ کا اسلوب مزید نکھر کر سامنے آۓ گا…ایسے ہی سیرت یا ادب پر کچھ لکھنا چاہتے ہیں تو پروفیسر مسعود احمد صاحب علیہ الرحمۃ کو پڑھیں..ان کی کتاب جان جاناں پڑھیں…جدید یعنی لبرلز میں مختار مسعود کو پڑھیں..ان کی کتاب "آواز دوست” کو پڑھیں..شروع کے صفحات تھوڑے گنجلگ محسوس ہوں گے پھر آسان ہے…
مزید باتیں ہوئیں اور مستقبل میں علمی تعاون کرنے کی بھی حضرت نے سوغات پیش کی…
اللہ تعالی ہمیں افراط و تفریط سے بچتے ہوۓ جادہ اعتدال پر گام زن ہونے کی توفیق عطا فرماۓ.. آمین….